پاکستان: قبائلی علاقوں میں سیاسی جماعتوں کو کام کرنے کی اجازت
13 اگست 2011پاکستان صدر آصف علی زرداری نے نوآبادیاتی دور کے قانون میں ترامیم کے مسودے پر دستخط کیے۔ اس موقع پر پاکستانی صدر کا کہنا تھا، ’’ ہمیں ہر حال میں دہشت گردوں کو شکست دینی ہو گی، اپنے ملک کے لیے، جمہوریت، اپنے اداروں اور طرز زندگی کو بچانے کے لیے‘‘۔ ان کے بقول قبائلی پٹی میں انصاف کے نظام کو تبدیل کرنا بہت ضروی تھا۔
اس سے قبل ان قبائلی علاقوں میں1901ء کا ایک قانون نافذ تھا۔ اس کی رو سے پولیٹیکل اور نائب پولیٹیکل ایجنٹوں کے فیصلوں کے خلاف اپیل نہیں کی جا سکتی تھی۔ صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر نے بتایا کہ اس طرح اب تمام جماعتیں ان علاقوں میں اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھ سکتی ہیں۔ ان کو اس بات کی بھی اجازت ہو گی کہ وہ تعمیر نو اور علاقے میں معاشی بہتری لانے کے منصوبے بھی پیش کر سکتی ہیں۔
حکومت کا موقف ہے کہ نیم خود مختار قبائلی علاقوں میں شدت پسندی اور پرتشدد واقعات کوختم کرنے کے لیے مرحلہ وار اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ امریکہ اور مغربی ممالک کے خیال میں قبائلی علاقہ جات دہشت گردوں کا مرکز ہیں۔
نوآبادیاتی دور کے قانون میں ترمیم کرنے کے بعد کس بھی شخص کو گرفتار کرنے کے چوبیس گھنٹوں کے دوران متعلقہ حکام کے سامنے پیش کرنا ہو گا۔ ساتھ ہی ملزم کو ضمانت کا حق بھی حاصل ہو گا۔ اس کے علاوہ 16سال سے کم اور65 سال سے زائد عمر کے مرد اور خواتین کو حراست میں نہیں لیا جائے گا۔
سیاسی امور کے ماہر ظفر اللہ خان کے بقول یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے۔’’سیاسی سرگرمیوں کے فروغ سے علاقے میں امن کی بحالی میں مدد ملے گی‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب تک اس خطے کے لوگوں کے پاس صرف دو راستے تھے، یا توحکومت کی حمایت یا پھر طالبان کا ساتھ۔ ’’اب علاقے میں لوگوں کے پاس بہت سے امکانات ہوں گے۔ ان کے پاس اختیار ہوگا کہ وہ اپنی مرضی سے اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کا انتخاب کر سکیں۔‘‘
فرحت اللہ بابر کا مزید کہنا تھا کہ ترامیم کے بعد قبائلی علاقوں میں سیاسی شعبے کے خلاء کو پُر کر دیا گیا ہے۔ اس سے قبل ان علاقہ جات سے صرف آزاد امیدوار منتخب ہوتے تھے اور ان میں سے زیادہ تر مذہبی جماعتوں کے حمایت یافتہ ہوتے تھے۔ ظفر اللہ خان کہتے ہیں کہ اب جمہوری اور سیکیولر جماعتوں کی موجودگی سے برداشت کی فضا پروان چڑھے گی۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت : شامل شمس