پاکستان میں بڑھتا ہوا سرطان، ماہرین تشویش میں مبتلا
4 فروری 2019ہر سال چار فروری کو پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی کینسر کا عالمی دن منایا جاتا ہے، جہاں حکومتی زعماء مختلف دعوے بھی کرتے ہیں لیکن ناقدین کے خیال میں ان تقریبات کے بعد اس مسئلے پر کوئی خاص کام نہیں ہوتا۔ اسی لیے یہ مسئلہ سنگین ہوتا جارہا ہے اور دو ہزار اٹھارہ میں ایک اندازہ کے مطابق تقریباً ایک لاکھ پچاس ہزار افراد اس خطرناک مرض کا شکا ر ہوئے۔ مختلف اقسام کے کینسر پاکستان میں عام ہوتے جارہے ہیں لیکن ماہرین کے خیال میں چھاتی کے سرطان میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
بریسٹ کینسر کے حوالے سے آگاہی بیدار کرنے والی تنظیم پنک ربن Pink Ribbon کے چیف ایگزیکیٹو آفیسر عمر آفتاب نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ گزشتہ برس ملک میں کینسر کے مجموعی طور پر ایک لاکھ پچاس ہزار کے قریب مریض تھے، جس میں اڑتیس اعشاریہ پانچ فیصد لوگ چھاتی کے سرطان میں مبتلا ہیں۔ ہر نویں خاتون اس کا شکار ہو سکتی ہے جب کہ مجموعی طور پر ایک کروڑ بیس لاکھ خواتین کو سرطان کا خطرہ ہے۔‘‘
عمر آفتاب کہتے ہیں کہ اٹھارہ ، انیس اور بیس سال کی لڑکیوں کو بھی یہ مرض لا حق ہورہا ہے اور اس کی ایک وجہ Steroid کا استعمال ہے جو بھینسوں، گائیں اور مرغیوں کا دیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ہارمونل عدم توازن بڑھتا ہے، جو بالا آخر بریسٹ کینسر کا سبب بنتا ہے۔
ماہرین کے خیال میں مختلف علاقوں میں مختلف نوعیت کے کینسر بڑھ رہے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او سے وابستہ ایک ماہر صحت نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اس بات میں کوئی شک نہیں کہ steroidکا استعمال خطرناک حد تک ہورہا ہے، جو سرطان میں اضافے کی ایک اہم وجہ ہے۔ اس کے علاوہ کراچی، حیدرآباد اور دوسرے شہروں میں گٹکے، پان، چھالیہ اور مین پوری کی وجہ سے گلے کا کینسر بھی بڑھ رہا ہے۔ جب کہ تمباکو نوشی اور آلودگی سے بھی اس میں اضافہ ہورہا ہے۔‘‘
تاہم کچھ طبی ماہرین کا خیال ہے کہ کینسر کے واقعات میں اضافہ نہیں ہورہا بلکہ اب اس کی تشخیص زیادہ آسانی سے ہورہی ہے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق سیکریٹری جنرل ڈاکڑ شیر شاہ سید نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ماضی میں بھی لوگ کینسر سے مرتے تھے لیکن ان کو پتہ نہیں چل پاتا تھا لیکن اب ا س کی تشخیص ہورہی ہے تو ہمیں لگ رہا ہے کہ کیسز بڑھ گئے ہیں۔ میرے خیال میں معاملہ ایسا نہیں ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ حکومت اس مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔
کینسر کے مریضوں کی ایک بڑی تعداد غریب طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کینسر کی ادویات بنانے والے ادارے نہ ہونے کے برابر ہیں۔
پاکستان کی دس بڑی فارما کمپنیوں میں سے ایک کمپنی کے عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہمیں دوائیاں بھارت سے منگوانی پڑتی ہیں کیونکہ امریکا و یورپ میں کینسر کی ادویات بھارت کے مقابلے میں دس سے بیس گناہ مہنگی ہیں۔ لیکن بھارت سے منگوانے میں مسئلہ یہ ہے کہ آپ معیار کی سو فیصد گارنٹی نہیں دے سکتے۔ تو وہاں سے اچھی کوالٹی کی بھی دوائیں منگوائی جا رہی ہیں اور غیر معیاری ادویات بھی امپورٹ کی جارہی ہیں۔‘‘
ان کے بقول اگر حکومت چاہتی ہے کہ پاکستان میں یہ دوائیاں بنائی جائیں تو اسے مشینری، خام مال اور دوسری اشیاء پر سسبڈی دینی چاہیے۔ ملک میں ادویات بنانے کی چھ سو سینتالیس فیکڑیاں ہیں۔ لیکن پچاس کمپنیوں کے پاس ستر سے اسی فیصد مارکیٹ شیئر ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسی کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کرے۔‘‘
ماہرین کا خیال ہے کہ سن دوہزار تیس تک کینسر دنیا میں موت کا سب سے بڑا سبب بن جائے گا۔ ایک اندازے کے مطابق دوہزار اٹھارہ میں عالمی سطح پر نو ملین سے زائد کی ہلاکت اس مرض کی وجہ سے ہوئی۔
ڈی ڈبلیو نے وفاقی وزارتِ صحت کے حکام سے کئی بار رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ تاہم انہوں نے نہ تو فون اٹھایا اور نہ ہی تحریری سوالات کے جواب دیے۔