پاکستان میں خواتین پر تشدد مسلسل بڑھتا ہوا
25 نومبر 2015
25 نومبر سے اگلے 16 روز تک اس دن کو منانے کا مقصد، عورتوں پر ہر طرح کے تشدد کے خاتمے اور صنفی بنیادوں پر نشانہ بنائی جانے والی خواتین کو تحفظ فراہم کرنے اور اُنہیں اُن کے حقوق دلانے کی کوششوں میں تیزی لانے پر زور دینا ہے۔
پاکستان میں صورتحال کو دیکھا جائے تو سرکاری اور غیر سرکاری اعداد و شمار اس جانب واضح اشارہ کرتے ہیں کہ خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہی ہو رہا ہے۔
ملکی پارلیمنٹ میں وزارت قانون اور انسانی حقوق کی جانب سے پیش کی گئی ایک رپورٹ، پاکستان میں خواتین پر تشدد کے واقعات کی صرف ایک جھلک پیش کرتی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق 2009 ء تا 2014ء یعنی صرف پانچ سال کے عرصے میں خواتین سے صرف زیادتی کے ہی 14,583 کیسز درج ہوئے۔ دوسری جانب خواتین سے متعلق مسائل پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم، عورت فاؤنڈیشن کے مطابق اصل واقعات کی تعداد حکومتی اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے۔
عورت فاؤنڈیشن کی جانب سے اخبارات اور میڈیا پر آنے والی خبروں پر مبنی جو رپورٹ مرتب کی گئی ہے، اس کے مطابق 2014 ء کے دوران صرف صوبہ پنجاب میں, جہاں خواتین پر تشدد کے سب سے زیادہ واقعات پیش آئے، خواتین پر تشدد کے رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد سات ہزار سے زائد ہے۔
عورت فائنڈیشن کی ریجنل ڈائریکٹر مہناز رحمان کے مطابق 2014 ء میں خواتین کو اٖغوا کرنے کے ایک ہزار سات سو سات کیسز جبکہ ریپ اور گینگ ریپ کے ایک ہزار چار سو آٹھ کیسز رپورٹ ہوئے، ’’صرف یہ ہی نہیں بلکہ اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں دیگر صوبوں کے مقابلے میں عزت کے نام پر قتل کے سب سے زیادہ کیسسز رپورٹ ہوئے ہیں جن کی تعداد 340 ہے ۔ جبکہ پاکستان میں ہر روز چھ خواتین کو اغوا اور چھ کو قتل، چار خواتین کے ساتھ زیادتی اور خواتین کی خود کشی کے واقعات اکثر سامنے آتے ہیں ۔‘‘
مہناز رحمان کے مطابق سندھ کی بات کی جائے تو یہاں عزت کے نام پر قتل یعنی کاروکاری کے واقعات سب سے زیادہ ہوتے ہیں، ’’2014 ء میں سندھ میں عزت کے نام پر258 قتل کیے گئے۔ ان میں خواتین کی تعداد 197 رہی جبکہ 2015 ء کے ابتدائی مہینوں میں 25 خواتین کو قتل کیا گیا۔‘‘
پاکستان میں سول سوسائٹی اور تحفظ نسواں کے لیے کام کرنے والی کئی تنظیموں کی جانب سے خواتین پر تشدد کے روک تھام کے لیے مسلسل کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس کوشش میں قانون ساز ادارے بھی شامل ہوتے ہیں جو ان کے ساتھ مل کر قانون تو بنا لیتے ہیں، تاہم ان پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر نظر آتا ہے۔
مہناز رحمان کے مطابق اس کی وجہ حکومتوں کی عدم دلچسپی ہے، ’’خواتین پر تشدد کے خلاف قانون تو بہت بنائے گئے ہیں، لیکن اس قانون پر عمل درآمد کا مرحلہ نہیں آتا۔ اس لیے کہ اسمبلی میں پاس ہونے کے بعد جو لازمی شرائط ہیں جن پر حکومت کو عمل کرنا چاہئے، حکومتیں ان کو پورا نہیں کرتی۔ مثلاً گھریلو تشدد کے خلاف بل سب سے پہلے سندھ میں بنا لیکن آج تک اس کے rules of business نہیں بنے۔ ان کے تحت جو کمیٹیاں بننا تھیں وہ نہیں بنیں۔ یہ سب حکومتوں کی اور ان کے قانون ساز ادارے کی ذمہ داری ہے جسے پورا نہیں کیا جاتا۔‘‘
حقوق نسواں کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق خواتین پر تشدد کے خاتمے اور ان کے تحفظ کے لیے صرف حکومت ہی نہیں بلکہ معاشرے پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔