پاکستان میں زمینی فوج نہیں بھیجیں گے، امریکہ
1 اکتوبر 2011خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی حکومت کے ایک اعلیٰ عہدے دار کا کہنا ہے کہ اسلام آباد حکام کو اس مؤقف سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔
جمعہ کو پاکستان کے مختلف شہروں میں مذہبی تنظیموں کی جانب سے امریکہ مخالف مظاہرے ہوئے۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان نیا تنازعہ امریکی فوج کے سابق سربراہ ایڈمرل مائیک مولن کے بیانات کے بعد پیدا ہوا۔ انہوں نے کہا تھا کہ حقانی نیٹ ورک کو آئی ایس آئی کی حمایت حاصل ہے۔ واشنگٹن انتظامیہ مولن کے بیانات سے فاصلہ رکھ رہی ہے۔
امریکی فوج کے سربراہ کی حیثیت سے مولن کے فرائض منصبی ختم ہونے پر جمعہ کو ایک تقریب بھی منعقد ہوئی، جس میں ان کی گفتگو میں پاکستان کے بارے میں نرمی دیکھی گئی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات اہم ہیں اور پاکستان کے بغیر افغانستان کے مسئلے کا حل ممکن نہیں ہے۔
دوسری جانب امریکی صدر باراک اوباما نے تسلیم کیا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کے پاکستان کے ساتھ رابطے واضح نہیں ہیں۔ تاہم انہوں نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ پھر بھی اس مسئلے کو حل کرے۔ انہوں نے جمعہ کو ایک ریڈیو انٹرویو میں کہا: ’’تعلقات کی نوعیت کے بارے میں انٹیلی جنس اتنی واضح نہیں ہے جتنی ہم چاہتے ہیں۔‘‘
باراک اوباما نے جمعہ کو امریکی سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان میں رہنماؤں کو ایک خط بھی بھیجا ہے کہ وہ افغان جنگ کے منصوبے کے حوالے سے اپنا طرزِ عمل برقرار رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی انتظامیہ حکمت عملی کا نفاذ برقرار رکھے گی اور اس حوالے سے مزید تبدیلیوں پر یقین نہیں رکھتی۔
اُدھر امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے آرکنساس میں ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ ’اچھے اور برے دہشت گردوں‘ میں تفریق کرنا پاکستان کی تاریخ رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اچھے دہشت گردوں‘ کو وہ اپنے اسٹریٹیجک مقاصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے اور ’برے دہشت گرد‘ خود اس کے خلاف کام کرتے ہیں۔
خیال رہے کہ حقانی نیٹ ورک کا کہنا ہے کہ اب پاکستان میں اس کے مزید ٹھکانے نہیں ہیں اور وہ اپنی کارروائیاں جاری رکھنے کے لیے افغانستان کو زیادہ محفوظ خیال کرتے ہیں۔ پاکستان کے عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ اس نیٹ ورک کے دس فیصد تک فائٹر ہی پاکستان میں ہیں جبکہ باقی افغانستان میں ہیں۔
رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے
ادارت: عدنان اسحاق