پاکستان میں غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے
24 فروری 2024
عالمی بینک کے موجودہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں محض ایک سال کے دوران غربت کی شرح 34.2 فیصد سے بڑھ کر 39.3 فیصد تک پہنچ چکی ہے ۔ یوں پاکستان میں 95 ملین افراد بنیادی ضروریات زندگی پورا کرنے میں مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔
پاکستان میں گوناگوں مشکلات کی وجہ سے غربت کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے معیشت کو استحکام پر لانے کے لیے موثر پالیسی سامنے نہ آسکی ملک میں غیر یقینی صورتحال، بدامنی اور قدرتی آفات غربت کی شرح میں اضافے کا سبب بن گئی ہیں۔ پاکستان کے دوسرے علاقوں کے مقابلے میں صوبہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں گذشتہ ایک سال کے دوران غربت کی شرح میں بدترین اضافہ دیکھنے میں آیا ہے دونوں صوبوں باالخصوص خیبر پختونخوا میں 40 فیصد شہری غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گذار رہے ہیں۔
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں اس شرح میں اضافے کی بنیادی وجوہات چار دہائیوں سے جاری بدامنی ، دہشت گردی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے ۔ سال1980ء کے بعد لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجر بن کر پاکستان پہنچ گئے۔
تقریباً 58 فیصد افغانوں نے خیبر پختونخوا میں پناہ لی جو صوبے کی کمزور معیشت پر اضافی بوجھ بن گئے۔ مہاجرین کے ساتھ ہی قبائلی اضلاع میں دہشت گردی کے خلاف جنگ سے تنگ آکر نقل مکانی کرنے والے بھی بندوبستی اضلاع میں بسنے لگے ۔ خیبر پختونخوا میں بدامنی کی وجہ سے اغوا برائے تاوان ، بھتہ خوری کے واقعات نے سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کو یہاں سے نکلنے اور ملک کے دوسرے شہروں یا بیرون ملک کارخانے لگانے پر مجبور کیا۔
سرحد چیمبر آف کامرس کے مطابق صوبے میں تقریباً ایک ہزار چھوٹے بڑے کارخانے بدامنی ،بجلی ،گیس کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے اور بھاری ٹیکسز کی وجہ سے بند ہیں ۔ جسکی وجہ سے ہزاروں افراد بے روزگار ہوئے ۔ صوبے میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایک جانب بے روزگاری اور دوسری جانب حکومت کی جانب سے قدرتی گیس،بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے نے مہنگائی میں کئی گنا اضافہ کردیا ۔ کارخانہ دار مہنگی بجلی ، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی وجہ سے معیاری پراڈکٹ تیار کرنے میں ناکام رہے جسکی وجہ سے زیادہ تر کارخانے بند ہوئے جو بے روزگاری میں اضافے کا سبب بن گیا۔
وفاق سے ملنے والی رقوم
سال رواں کے دوران خیبر پختونخوا کو وفاقی حکومت کی جانب سے کئی مدوں میں مختص رقوم میں کمی دیکھنے میں آئی۔ وفاقی حکومت نے صوبے کو پن بجلی کے خالص منافع کی رقم، دہشت گردی کے خلاف جنگ ،ضم قبائلی اضلاع کے لیے مختص رقم سمیت جاری اخراجات کے لیے مختص رقم میں 608 ارب روپے فراہم نہیں کیے جسکی وجہ سے صوبے کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا سرکاری ملازمین کی تنخواہوں ، ہسپتالوں کے لیے ادویات اور ضروری سامان کی خریداری ،جاری ترقیاتی منصوبوں کے لیے مختص بجٹ پر کٹ لگانا پڑا۔ صوبے میں غیر یقینی صورتحال اور نگران حکومت کی وجہ سے اپنے زرائع سے حاصل ہونیوالی آمدنی کا حدف بھی پورا نہ ہوسکا ۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صوبے کے اپنے محاصل میں 10 ارب روپے سے زیادہ کی کمی کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح متوقع بیرونی امداد کی مد میں ملنے والی رقوم میں بھی 55 ارب روپے کی کمی کا سامنا کرنا پڑا۔
ٹیکس وصولی میں ناکامی
عالمی قرضہ دینے والے اداروں کے مطابق پاکستان میں جی ڈی پی کے 22 فیصد کے برابر ٹیکس وصولی کی گنجائش ہے لیکن پاکستان کے ٹیکس جمع کرانے والے ادارے محض 10 اعشاریہ دو فیصد ٹیکس وصولی کررہے ہیں۔ عالمی بینک کی جانب سے زراعت پر جی ڈی پی کے ایک فیصد اور پراپرٹی پر دو فیصد ٹیکس جمع کرانے کی تجویز دی ہے جبکہ جائیداد کی خرید و فروخت کے لیے قومی شناختی کارڈ کو لازمی قرار دینے کی تجویز دی گئی ہے ۔
ماہرین کی رائے
معیشت کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر وقار حسین نے ڈی ڈبلیو کے رابطہ کرنے پر بتایا، ''دو قسم کی غربت ہوتی ہے ایک مطلق اور ایک نسبتی۔ یہاں یہ نسبتی غربت ہے اور اس میں اس وقت تک مسلسل اضافہ ہوگا جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہوتا۔ معاشی استحکام سیاسی استحکام کے ساتھ جڑا ہوتا ہے جب ملک میں غیر یقینی صورتحال ہو تو کوئی بھی سرمایہ دار سرمایہ کاری کرنے کا رسک نہیں لے سکتا۔
انکا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اور باالخصوص پختونخوا میں دو طرفہ مشکلات ہیں ایک طرف بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے اور بے روزگاری کے ساتھ ہی حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے بنیادی اشیا ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے جس نے عام شہری کی مشکلات بڑھا دی ہیں اور یوں وہ خط غربت کے نیچے آگئے ہیں۔ مڈل کلاس رفتہ رفتہ درمیان سے نکل رہی ہے۔ معاشرے میں دو ہی طبقات ہوں گے۔ مالدار اور غریب۔ انکا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں ٹیکس کولیکشن کے نظام میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر وقار حسین کا کہنا تھا کہ پختونخوا میں آمدن کے بڑے زرائع سے ٹیکس کی رقم وفاق وصول کرتا ہے۔ لیکن صوبے کو اپنے حصے کی ادائیگی اس تناسب سے نہیں کی جاتی جسکی وجہ سے صوبے کو مشکلات کا سامنا ہے۔‘‘
عالمی اداروں کی تعاون سے زراعت سے بے روزگاری پر قابو پانے کی کوشیش
خیبر پختونخوا زرعی صوبہ ہے لیکن یہاں کی مصنوعات بیرون ملک لے جانے میں مشکلات کا سامنا ہے جس کے لیے عالمی ادارہ خوراک و زراعت (ایف اے او) امریکی امدادی ایجنسی (یو ایس ایڈ) اور محکمہ زراعت نے سبزیاں اور پھل برآمد کنندگان کی مشکلات حل کرنے کی لیے۔ ''فوڈ سکیورٹی اینڈ لیولی ہوڈ پروگرام‘‘ کو کامیاب بنانے کے لیے لائحہ عمل تیار کیا ہے۔ اس سلسلے میں محمکہ زراعت کے ایڈیشنل سکریٹری محمد طاہر نے ڈی ڈبلو کو بتایا،''اپنی طرف سے پوری کوشیش کررہے ہیں کہ سبزی اور پھل برآمد کرنے والوں کی مشکلات حل کرسکیں ایئرپورٹ انتظامیہ ، ایف اے او اور یوایس ایڈ کے اہلکاروں سے بھی اس سلسلے میں تعاون لیا جارہا ہے، جبکہ اسٹیک ہولڈر سے ان کی مشکلات کا پتہ لگا یا۔ اب ایئرپورٹ میں کارگو کی سہولیات کی فراہمی اور کولڈ اسٹوریج کے ساتھ جہازوں میں درجہ حرارت اور کارگو سہولیات سمیت برآمدی نقصانات کم کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے۔ ہمارے کئی اضلاع میں بہترین سبزی اور پھل پیدا ہوتے ہیں، لیکن مارکیٹ نہ ہونے کی وجہ سے انہیں مناسب معاوضہ نہیں ملتا ۔ صوبے میں زراعت سے لاکھوں افراد وابستہ ہیں برآمدات میں اضافے سے جہاں ہزاروں افراد کو روزگار ملے گا وہاں یہ غربت کی شرح میں کمی کا باعث بھی بنے گا۔
خیبرپختونخوا میں 60 فیصد کارخانے بند
امن و امان کی غیر یقینی صورتحال ، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے صوبے میں 60 فیصد صنعتیں بند ہوگئی ہیں جس سے ہزاروں افراد بے روزگار ہوئے۔ انڈسٹرییلسٹ ایسوسی ایشن کے صدر ایوب خان زکوڑی نے ڈی ڈبلیو کے رابطہ کرنے پر بتایا، ''گیس اور بجلی پختونخوا کی پیداوار ہے۔ آئین کے آرٹیکل 158 کے تحت اس پر پہلے اس صوبے کا حق ہے لیکن وفاقی حکومت مہنگی گیس بھی فراہم کرسکتی ہے۔ بجلی اور گیس کی کمی کی وجہ سے بھی متعدد کارخانے بند ہوئے ہیں۔ ہم دیگر صوبوں کا مقابلے نہیں کرسکتے ہم مہنگی پراڈکٹ تیار کریں گے تو کہاں فروخت کریں گے ہم ایکسپورٹ کرہی نہیں سکتے۔‘‘ انکا مزید کہنا تھا کہ پختونخوا کے صنعت کاروں کو قرضے کی سہولت بھی فراہم نہیں جس سے وہ یونٹس کو بڑھا کر روزگار فراہم کرسکیں ۔ ہمارے ہاں اپنے ہی ڈپازٹ پر ایک فیصد قرضہ دیا جاتا ہے۔ پنجاب کے کارخانہ داروں کو 120 فیصد ، سندھ کو 80 جبکہ بلوچستان کو 8 فیصد قرضہ دیا جاتا ہے ۔ انکا کہنا تھا کہ 60 فیصد کا رخانوں کی بندش اور باقی ماندہ کی پروڈکشن میں کمی کی وجہ سے سے ہزاروں افراد بے روزگار ہوگئے ہیں۔