پاکستان میں مذہبی آزادی کی ’مخدوش صورتحال‘ پر امریکی تشویش
1 مئی 2013بین الاقوامی آزادئ مذہب پر قائم کردہ ایک حکومتی کمیشن نے اپنی سالانہ رپورٹ میں تجویز کیا ہے کہ پاکستان کو ایسے ممالک کی فہرست میں شامل کر لیا جانا چاہیے، جہاں آزادئ مذہب کی صورتحال انتہائی ابتر ہے۔ اس فہرست میں شامل ممالک اگر اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے میں ناکام رہتے ہیں تو واشنگٹن حکومت ان پر پابندیاں عائد کر سکتی ہے۔
اس رپورٹ میں پاکستان کے علاوہ سعودی عرب، ایران، مصر، میانمار اور دیگر ممالک میں بھی مذہبی آزادی کی صورتحال پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ یہ کمیشن امریکی حکومت کو تجاویز دیتا ہے تاہم کوئی حتمی فیصلہ سازی میں اس کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ اس کمیشن نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور بالخصوص شیعہ اقلیت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اس سالانہ رپورٹ کے مطابق، ’’ حکومت مسیحیوں، احمدیوں اور ہندؤوں کو تحفظ فراہم کرنے میں مسلسل ناکام ہو رہی ہے۔ اس رپورٹ میں یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ توہین رسالت اور دیگر قوانین نہ صرف وسیع پیمانے پر آزادئ مذہب کی خلاف استعمال ہو رہے ہیں بلکہ ان سے عدم برداشت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
گزشتہ برس کے دوران پاکستان میں سنی انتہا پسندوں نے سینکڑوں شیعہ مسلمانوں کو قتل کیا ہے، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق ہزارہ کمیونٹی سے ہے۔ بنیادی طور پر افغانستان سے تعلق رکھنے والی ہزارہ کمیونٹی قدرے لبرل خیالات کی حامل تصور کی جاتی ہے۔
منگل کے دن اس رپورٹ کے اجراء کے موقع پر اس کمیشن کے ڈائریکٹر برائے پالیسی اور تحقیق نوکس تھیمز نے کہا، ’’ آزادئ مذہب کے حوالے سے پاکستان اس وقت ایک بحران کا شکار ہے۔‘‘ اس کمیشن کے مطابق ایسے ممالک جنہیں اس مخصوص حوالے سے ابھی تک بلیک لسٹ نہیں کیا گیا ہے، ان میں پاکستان ایک ایسا ملک ہے، جس کی صورتحال سب سے زیادہ خراب ہے۔
امریکی حکومت نے ایسے ممالک کی ایک فہرست بنا رکھی ہے، جہاں آزادئ مذہب کا خیال نہیں رکھا جاتا ہے اور انہیں اس مخصوص حوالے سے انتہائی تشویش کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ان ممالک میں ایران، سعودی عرب، چین، شمالی کوریا اور سوڈان کے علاوہ ازبکستان بھی شامل ہے۔ اس کمیشن نے کہا ہے کہ پاکستان کے علاوہ مصر، عراق، نائجیریا، ترکمانستان اور ویت نام کو بھی اس فہرست میں شامل کر لیا جائے۔ اس رپورٹ پر ابھی تک پاکستان کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
ab/ng (AFP)