پاکستان میں پنجابی تھیٹر کی فحاشی کے سائے میں ماند پڑتی چمک
31 مارچ 2024سہیل احمد پاکستان میں تھیٹر کے معروف ترین اداکاروں میں سے ایک ہیں۔ وہ تقریباً 35 برس تک سٹیج شو کرتے رہنے کے بعد اب تھیٹر کو خیرباد کہہ چکے ہیں اور ان دنوں ٹی وی پر 'حسب حال‘ کے نام سے ایک کامیاب پروگرام کرتے ہیں۔
ڈی ڈبلیو اردو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”تھیٹر کا معیار اتنا گر چکا ہے کہ اب وہاں کام کرنے کا دل نہیں چاہتا۔ مزاح کے نام پر پھکڑ بازی کا بازار گرم ہے۔ بازاری زبان بولی اور برہنہ رقص پیش کیے جاتے ہیں۔ سوال تو یہ ہے کہ آیا تھیٹر کے تباہ ہونے میں ابھی کوئی کسر باقی ہے؟"
پاکستان میں تھیٹر اپنی موت آپ کیوں مر رہا ہے؟
پاکستان میں تھیٹر خاص طور پر پنجابی تھیٹر کی موجودہ صورت حال سے دل برداشتہ ہو کر اور اسے خیرباد کہہ کے ٹی وی کا رخ کرنے والے فنکاروں میں سہیل احمد واحد مثال نہیں ہیں بلکہ ایسے درجنوں نام گنوائے جا سکتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں پنجابی تھیٹر اس حال تک کیسے پہنچا اور اس کا مستقبل کیا ہے؟
پنجاب میں جدید عوامی تھیٹر کا عروج
پاکستان میں تھیٹر کی ابتدائی شخصیات میں سے ایک اور اسلام آباد میں نیشنل کونسل آف آرٹس کے سابق سربراہ نعیم طاہر نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''ابتدا میں فنکار بھی شوقیہ تھے اور سامعین بھی۔ 1957 میں ہمارا ایک ڈرامہ 'جرم کس کا‘ بہت کامیاب ہوا تھا۔ تب میں نے فیض صاحب سے معاوضے کی بات کی تھی۔ لیکن صحیح معنوں میں یہ اوپن ایئر تھیٹر میں ڈرامہ کرنے والے لوگ ہی تھے، جن سے کمرشل تھیٹر آگے بڑھا۔"
اس وقت پاکستانی صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے الحمرا آرٹس سینٹر میں بہت سنجیدہ اور مخصوص لوگوں کی دلچسپی کا تھیٹر کیا جا رہا تھا جبکہ لاہور ہی کے باغ جناح کے اوپن ایئر تھیٹر میں عوامی انداز کے مزاحیہ ڈرامے سٹیج کیے جا رہے تھے۔
روح کی غذا: کنسرٹ ہال بند ہوئے تو کنسرٹس آن لائن منتقل
اس تقسیم کو یاد کرتے ہوئے سہیل احمد کہتے ہیں، ”امان اللہ پر الحمرا کے دروازے بند تھے۔ قوی خان پہلی مرتبہ انہیں وہاں لے کر گئے تو ہنگامہ کھڑا ہو گیا تھا۔ ایک تفریق یہ تھی کہ عوامی تھیٹر کم تر درجے کی چیز ہوتا ہے۔"
پاکستانی تھیٹر کے نامور آرٹسٹ خالد عباس ڈار کے بقول امان اللہ نے پہلے پانچ سال تو آرٹس کونسل میں کام ہی نہیں کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ''میں نے اسے کہا، بیٹا! یہاں بھی آؤ۔ تو اس نے کہا میں اپنی مختلف آڈیئنس پیدا کر رہا ہوں۔ یہ اور آڈیئنس ہے، اور وہ اور ہے۔‘‘
خالد عباس ڈار کے بقول امان اللہ کی آمد کے ساتھ ہی نئے فنکاروں کا جیسے ایک سیلاب آ گیا تھا، ”میں نے اپنی شوبز کی ساٹھ پینسٹھ سالہ زندگی میں کسی دوسرے استاد کے اتنے شاگرد نہیں دیکھے، جتنے امان اللہ کے تھے۔"
نعیم طاہر کہتے ہیں، ”امان اللہ جیسے لوگوں کی آمد سے عام آدمی کی تھیٹر میں دلچسپی بڑھی۔ اسی اور نوے کی دہائی میں عوامی تھیٹر کے فنکار چھائے ہوئے تھے۔ یہ وہ عام لوگ تھے، جو عام لوگوں ہی کے لیے پرفارم کر رہے تھے۔"
نارویجین ڈرامہ نگار جون فوسے نے ادب کا نوبل انعام جیت لیا
سہیل احمد کے مطابق تب امان اللہ کی شہرت کا عالم یہ تھا کہ کوئی بھی رات خالی نہ جاتی تھی۔ ایک کے بعد ایک شو ہوتا تھا۔ یہی وہ وقت تھا، جب ایسے لوگ بھی تھیٹر میں آ گئے تھے، جن کا مقصد محض بزنس تھا۔
فلم انڈسٹری کے زوال اور پرائیویٹ چینلز کے عروج کے درمیانی عرصے میں پنجاب میں عوامی تھیٹر خوب چلا۔ بڑے شہروں میں یہ فنکار لائیو شو کرتے جبکہ دور دراز کے دیہات میں ان کی ریکارڈنگ کی سی ڈیز پہنچتی تھیں۔
نجی ٹی وی چینلز کی آمد اور بڑے ناموں کی تھیٹر سے رخصتی
خالد عباس ڈار، امان اللہ اور سہیل احمد سٹیج کے نمبر ون اداکار تصور کیے جاتے تھے۔ یہ سب تھیٹر چھوڑ کر ٹی وی پر آ گئے۔ ان کے علاؤہ افتخار ٹھاکر، آغا ماجد، ہنی البیلا، امانت چن اور ناصر چنیوٹی سمیت درجنوں نام ایسے ہیں جن کا سٹیج سے تعلق بہت محدود ہو گیا تھا اور جو زیادہ تر ٹی وی پر ہی نظر آتے تھے۔
ارطغرل کی دھوم عرب اور عثمانی سلاطین کی ’اثر و رسوخ کی جنگ‘
ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے ’میڈیا منڈی‘ کے مصنف اکمل شہزاد گھمن نے بتایا، ”نجی ٹی وی چینلز کی آمد نے تھیٹر سمیت شوبز کی ہر شاخ کو متاثر کیا۔ میڈیا مالکان جانتے تھے کہ مشہور آرٹسٹ اپنے ساتھ کتنے کتنے بڑے ہجوم بھی کھینچ کر لا سکتے تھے۔ یہاں معاوضہ بھی بہتر تھا۔ دوسری طرف سٹیج کا ماحول بتدریج خراب ہوتا جا رہا تھا۔ سہیل احمد بھی تقریباً دس برس تک مزاحمت کرتے رہے لیکن بالآخر انہیں بھی کنارہ کش ہونا پڑا۔"
ماضی میں تو سٹیج ڈرامے فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھے جاتے تھے۔ آخر بات یہاں تک کیسے پہنچی کہ سہیل احمد جیسے بڑے فنکاروں کو بھی تھیٹر چھوڑنا پڑا؟
تھیٹر پر فحاشی کے سائے
حالیہ کچھ عرصے کے دوران متعدد مرتبہ پبلک تھیٹر کے فنکاروں پر فحاشی یا فحش گوئی کے الزامات بھی لگے اور کئی تھیٹر سیل بھی کر دیے گئے۔ گزشتہ برس ستمبر میں محکمہ داخلہ پنجاب نے 18 رقاصاؤں پر غیر اخلاقی رقص کرنے کے سبب پابندی لگا دی تھی۔ پچھلے سال ہی ایک موقع تو ایسا بھی آیا تھا، جب ایک ماہ تک پنجاب کے تمام تھیٹر بند رہے تھے۔
اکمل شہزاد گھمن کہتے ہیں کہ پنجاب کے تھیٹر کے ساتھ بھی وہی ہوا، جو یہاں کی فلم انڈسٹری کے ساتھ ہوا۔ ”فلم عوامی تفریح تھی، اس کا ایک پورا کلچر تھا۔ لوگ فیملی کے ساتھ فلم دیکھنے سینما جایا کرتے تھے۔ پھر ایسے لوگ بھی اس شعبے میں سرمایہ کاری کرنے لگے، جن کی فن و ثقافت میں دلچسپی واجبی سی بھی نہیں تھی۔ وہ بس مال بنانا چاہتے تھے۔ ایک فارمولا تھا کہ فلم کو کامیاب بنانا ہو تو اس میں مار دھاڑ، ذومعنی فقرے بازی اور گھٹیا قسم کے ناچ گانے سمیت سب کچھ ہونا چایے۔ تب ’کنڈی نہ کھڑکا‘ جیسے گانے مشہور ہوئے، لوگوں نے سینما جانا چھوڑ دیا اور بالآخر انڈسٹری ٹھپ ہو کر رہ گئی۔ تھیٹر کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے۔ آج کا کمرشل تھیٹر ذومعنی فقرے بازی اور گھٹیا قسم کے ناچ گانے کے سوا ہے کیا؟"
ايران کے ایٹمی پروگرام پر اسرائيلی ڈرامہ سيريل
پاکستان میں آل پنجاب تھیٹر ایسوسی ایشن کے ایک عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”یہ مقابلہ بازی ہے۔ بااثر ڈانسرز لگے بندھے پیسوں کے بجائے منافع میں اپنا حصہ مانگنے اور وصول کرنے لگ گئیں۔ زیادہ سے زیادہ آڈیئنس اپنی طرف کھینچنے کے لیے تمام حدیں پار کر لی جاتی ہیں۔ اب تو زیادہ تر آڈیئنس ہی وہی رہ گئی ہے، جو بیہودہ تھیٹر ہی دیکھنا چاہتی ہے۔"
تو کیا پنجابی تھیٹر ایسے ہی چلتا رہے گا؟ اس کی بہتری کے امکانات کیا ہیں اور آیا صورت حال سنگین تر ہو جائے گی؟
پنجاب میں تھیٹر کا مستقبل کیا ہے؟
اکمل شہزاد گھمن کہتے ہیں، ”ایک وقت تھا جب انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں کمرشل تھیٹر کا راج تھا۔ پنجاب کے فنکار سٹیج ڈرامے کو نئی بلندیوں تک لے گئے۔ اب یہ سفر ڈھلوان کا سفر ہے۔ آج نہیں تو کل تھیٹر کا باقی ماندہ کلچر بھی فلم انڈسٹری کی طرح زمین بوس ہو جائے گا۔"
جرمنی کا طویل ترین ڈرامہ سیریل اختتام پذیر
دوسری طرف نعیم طاہر کہتے ہیں، ”انڈیا میں تھیٹر ہے۔ فلم انڈسٹری ہے۔ کلاسیکی موسیقی ہے۔ آرٹس کے تمام شعبے ترقی کر رہے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو مضبوط بناتے ہیں۔ ان کے تھیٹر سے آئے ہوئے فنکار فلمی صنعت میں کھپ جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں فلم انڈسٹری ہی نہیں رہی۔ تھیٹر آخری سانسیں لے رہا ہے۔ اب تو بس امید ہی کی جا سکتی ہے کہ دوبارہ کبھی اچھے دن بھی آئیں گے۔"