پاکستان میں کرسمس کی رونقیں
25 دسمبر 2013پاکستان میں کرسمس کی تقریبات جاری ہیں تاہم دہشت گردی کے خدشات کی وجہ سے کرسمس کی خوشیوں پر کسی حد تک خوف کے بھی سائے ہیں۔ اس موقع پر گرجا گھروں میں خصوصی عبادات اور دعاؤں کا سلسلہ جاری ہے، کرسمس گیت بھی سنائی دے رہے ہیں، کرسمس پارٹیوں کا انعقاد ہو رہا ہے، ایک دوسرے کو مبارک باد دینے کے ساتھ ساتھ مسیحی برادری کے ارکان ایک دوسرے کو پھول اور کیک بھی پیش کر رہے ہیں۔
اس سال بھی ہوٹلوں، گرجا گھروں اور مشنری تعلیمی اداروں کو کرسمس کے درختوں سے سجایا گیا ہے۔
پاکستان میں اس مرتبہ کرسمس کا تہوار پشاور میں ایک گرجا گھر پر اُس ہولناک خود کش حملے کے صرف تین ماہ بعد آیا ہے، جس میں بیاسی مسیحی ہلاک ہو گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس بار کرسمس کے موقع پر سخت حفاطتی انتظامات کیے گئے ہیں۔
کرسمس کی امسالہ تقریبات میں پشاور میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے مسیحیوں کو بھی یاد کیا جا رہا ہے۔ ایک مسیحی نوجوان نبیل واسطی نے ڈی ڈبلیو کا بتایا کہ اس مرتبہ لاہور ڈائسز کا روایتی کرسمس ڈنر منسوخ کر کے لاکھوں روپے سانحہ پشاور کے متاثرہ افراد کو بھیجے گئے ہیں۔
سلیم مسیح نامی ایک نوجوان نے بتایا کہ چند سال پہلے تک کرسمس منانے والوں کو کوئی خوف نہیں ہوتا تھا جبکہ اب تو چرچ جاتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ کہیں کوئی دھماکہ ہی نہ ہو جائے۔
لاہور کے ایک مقامی چرچ میں عبادت کے لیے آئے ہوئے طالب مسیح کی خواہش ہے کہ حکومت کو دہشت گردی کے مسئلے کے مستقل حل کے لیے کام کرنا چاہیے کیونکہ اس سے کرسمس کی خوشیاں بری طرح سے متاثر ہوئی ہیں۔
لاہور کینٹ کے مرکزی سینٹ میری چرچ کے پادری سلیم سلطان نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے اس تاثر کو رَد کیا کہ دہشت گردوں نے مسیحی برادری کو ٹارگٹ کیا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گرد تو مسجدوں، امام بارگاہوں اور درباروں تک کو بھی اپنی دہشت پسندانہ کارروائیوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان کے بقول کرسمس کا تہوار دراصل آپس میں محبتیں پھیلانے، خوشیاں بانٹنے اور بھائی چارے کی فضا کو فروغ دینے کا پیغام دیتا ہے۔ انہوں نے کہا، خدا یہی چاہتا ہے کہ تمام لوگ آپس میں بھائی چارے اور محبت کے ساتھ رہیں۔
جوزفین نامی ایک مسیحی خاتون کا کہنا تھا کہ کرسمس منانے کا اصل مزا پندرہ بیس سال پہلے آتا تھا، جب ملک کے حالات ٹھیک تھے اور کسی کو کوئی خوف نہیں ہوتا تھا۔
ایک مسیحی نوجوان ناصر کا خیال تھا کہ مہنگائی اور بڑھتی ہوئی غربت بھی کرسمس کی خوشیوں کو متاثر کر رہی ہے۔ اگرچہ پاکستانی حکومت نے کرسمس کے موقع پر مسیحی برادری کے لیے کئی فلاحی اقدامات کیے ہیں لیکن یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ پاکستان میں مسیحی برادری کا ایک بڑا حصہ مالی مشکلات کا شکار ہے۔
لاہور کے ایک مقامی چرچ میں ایک فلاحی تنظیم اخوت کے طرف سے کیک اور تحائف لے کر آنے والی ایک لڑکی مس رضا رضوی کا تعلق ایک مسلمان گھرانے سے ہے لیکن وہ انسانیت کے ساتھ محبت کے جذبے کے تحت گزشتہ کئی برسوں سے مسیحی بھائیوں کے لیے تحائف اور کھانا لے کر گرجا گھروں میں جاتی ہے۔
اس مرتبہ بھی کرسمس کے موقع پر مسلمان تنظیموں نے مسیحی برادری کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے مشترکہ تقریبات منعقد کیں اور کیک کاٹے۔ ’اخوت‘ کی طرف سے لاہور کینٹ کے چرچ میں منعقدہ تقریب اس اعتبار سے بہت منفرد تھی کہ یہاں ایک سو مسیحی خاندانوں کو اس فلاحی تنظیم کے طرف سے بیس لاکھ روپے کے بلا سود قرضے دیے گئے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے اخوت کے سربراہ ڈاکٹر امجد ثاقب کا کہنا تھا کہ ان کا ادارہ مذہبی، لسانی اور علاقائی تعصبات سے بالاتر ہو کر غریب لوگوں کی مدد کر رہا ہے۔ ان کے مطابق پاکستان کی تمام اقلیتیں ’اخوت‘ کے بلا سود قرضوں کی سہولت سے مستفید ہو سکتی ہیں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کا کہنا تھا کہ اُن کی تنظیم کیک کاٹنے تک محدود نہیں ہے بلکہ مسیحی بھائیوں کی عملی طور پر مدد بھی کر رہی ہے۔
ڈاکٹر انور سہیل نامی ایک مسیحی رہنما کو خوشی ہے کہ پاکستان کے مسلمان شہری بھی کرسمس کی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔