پاکستان میں گندم کا بڑھتا ہوا بحران، کسان کاشت سے گریزاں
24 نومبر 2024پچھلے سال گندم کی سرکاری خریداری نہ ہونے کی وجہ سے کسانوں کو ہونے والے شدید مالی نقصانات کے بعد اس مرتبہ گندم کی بوائی انتہائی سست روی کا شکار ہے اور اس بات کا امکان بڑھ رہا ہے کہ قرضوں میں جکڑی ہوئیپاکستانی حکومت کو ملکی غذائی ضروریات پورا کرنے کے لیے قیمتی زر مبادلہ خرچ کر کے بیرون ملک سے گندم درآمد کرنا پڑے گی۔
پاکستان کسان اتحاد کے صدر خالد کھوکھر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس سال گندم کی فصل پچھلے سال کے مقابلے میں 20 فیصد کم رہنے کا امکان ہے۔ گندم کی پیداوار میں 15 فیصد کمی اس فصل کی کم رقبے پر کاشت کی وجہ سے ہو گی جبکہ باقی ماندہ پانچ فیصد کمی کا سبب یہ ہو گا کہ معاشی مسائل کا شکار ایک عام کسان اپنی فصل کے لیے معیاری بیج اور مناسب مقدار میں کھادوں اور زرعی ادویات کا استعمال نہیں کر سکے گا۔
پنجاب میں اب تک گندم کی کتنی کاشت کہاں؟
پاکستانی صوبہ پنجاب میں زراعت اور لائیو سٹاک کے وزیر سید عاشق حسین کرمانی کی زیر صدارت گندم کی کاشت کے حوالے سے ہونے والے ایک حالیہ سرکاری اجلاس میں بتایا گیا تھا کہ اس سال پنجاب میں گندم کی کاشت کا ہدف ایک کروڑ 65 لاکھ ایکڑ مقرر کیا گیا تھا، جس میں سے اب تک صرف 70 لاکھ 91 ہزار ایکڑ رقبے پر ہی گندم کاشت کی جا سکی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گندم کی کاشت کا سرکاری ہدف تاحال آدھا بھی حاصل نہیں ہو سکا۔
ہائبرڈ گاڑیوں کے بعد اب ہائبرڈ گندم بھی مارکیٹ میں آنے کو
صوبائی محکمہ زراعت کے ایک ترجمان کے مطابق سرگودھا ڈویژن میں گندم کی کاشت چھ لاکھ 33 ہزار ایکڑ رقبے پر ہوئی جبکہ ہدف 17 لاکھ 40 ہزار ایکڑ تھا۔ ''اسی طرح ساہیوال میں چار لاکھ 16 ہزار ایکڑ پر گندم کاشت ہوئی جبکہ ہدف نو لاکھ 20 ہزار ایکڑ تھا۔ ملتان ڈویژن میں چھ لاکھ 30 ہزار ایکڑ پر گندم کاشت کی گئی جبکہ ہدف 18 لاکھ 20 ہزار ایکڑ تھا۔ ڈیرہ غازی خان میں 11 لاکھ 41 ہزار ایکڑ رقبہ گندم کی کاشت کے لیے استعمال ہوا ہے جبکہ ہدف 22 لاکھ 94 ہزار ایکڑ تھا۔ بہاولپور ڈویژن میں آٹھ لاکھ 28 ہزار ایکڑ پر گندم کاشت ہو چکی ہے جبکہ ہدف 26 لاکھ 11 ہزار ایکڑ تھا۔‘‘
پاکستان میں گندم کی پیداوار میں پنجاب کا حصہ
پاکستان میں گندم کی فصل غذائی تحفظ کی ضامن ہے اور ملکی پیداوار میں سے 70 فیصد گندم صوبہپنجاب سے ہوتی ہے۔ پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے گندم کی کاشت اور پیداوار میں اضافے کے لیے ایک خصوصی پیکج کا اعلان بھی کیا ہے۔
یوکرینی جنگ اور زرعی اجناس، پانچ اہم حقائق
اس پیکج کے مطابق 25 ایکڑ سے زائد رقبے پر گندم کاشت کرنے والے کسانوں کو قرعہ اندازی کے ذریعے ایک ہزار ٹریکٹر دیے جائیں گے جبکہ 12.5 ایکڑ تک گندم کاشت کرنے والے کسانوں کو قرعہ اندازی کے ذریعے لیزر لینڈ لیولر اور چھوٹے کاشت کاروں کو کسان کارڈ کے ذریعے بیج، کھاد اور زرعی ادویات کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ گندم کے پیداواری مقابلے کرانا بھی اسی پیکج کا حصہ ہے جبکہ کافی زیادہ فی ایکڑ پیداوار حاصل کرنے والوں کے لیے بھی پر کشش انعامات کا اعلان کیا گیا ہے۔
فوڈ سکیورٹی، متبادل گندم مدد گار ہو سکتی ہے
کسان بورڈ پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عبدالجبار خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس مرتبہ کسان حکومت کی باتوں پر اعتبار کرنے کو اس لیے تیار نہیں ہیں کہ پچھلے سال بھی حکومت نے کئی اعلانات کیے تھے۔ پھر حکومت نے گندم کی امدادی قیمت کا اعلان کر کے، گندم کی خریداری کے مراکز قائم کر کے اور ان میں بار دانہ تقسیم کرنے کے باوجود گندم کی سرکاری خریداری سے اچانک پیچھے ہٹ کر کاشتکاروں کو ''دھوکا‘‘ دیا تھا۔
گندم کی امدادی قیمت کے حکومتی اعلان کا مطالبہ
ڈاکٹر عبدالجبار خان کے بقول اگر حکومت گندم کی فصل کی اچھی پیداوار حاصل کرنے میں مخلص ہے، تو اسے کسانوں کے مشورے کے ساتھ فوری طور پر گندم کی امدادی قیمت کا اعلان کرنا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ کاشت کاروں کو ان کی فصل کا معقول معاوضہ مل سکے۔
انہوں نے کہا، ''ہم اپنے پورے خاندان کی مدد سے گندم بوتے ہیں، سرد راتوں کو جاگ جاگ کر پانی دیتے ہیں۔ شدید گرمی میں اس فصل کی کٹائی کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ ہم نقصان اٹھانے کے لیے تو نہیں کرتے۔‘‘
توانائی بحران کے خلاف کوئٹہ میں کسانوں کا احتجاجی دھرنا
حافظ آباد سے تعلق رکھنے والے حسن نامی ایک زمیندار نے بتایا کہ معاملہ اتنا شدید نوعیت کا ہے کہ گندم کے پیداواری علاقوں سے ''ٹھیکے پر زمین لے کر کاشت کرنے والے لوگ بھی بھاگ گئے ہیں اور یہ ایک ایسے وقت پر ہو رہا ہے، جب ہم نے ٹھیکے کی رقم بھی پچھلے سال سے آدھی کر دی ہے۔‘‘
گندم کے بجائے مکئی کی کاشت
پنجاب کی تحصیل پتوکی کے ایک کاشتکار محمد حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پچھلے سال کے مقابلے میں اس سال ابھی تک کاشتکاروں نے پچاس فیصد رقبے پر ہی بمشکل گندم کاشت کی ہے۔
انہوں نے کہا، ''کئی چھوٹے کسان ایسے ہیں، جنہوں نے صرف اپنے گھر کی ضروریات کے لیے ہی گندم کاشت کی ہے۔ بہت سے کسانوں نے اس وقت اپنے کھیتوں میں چارہ اگا رکھا ہے اور وہ اگلے مہینے سے اس پر مکئی کی فصل بوئیں گے، جو پینتیس سو روپے سے چار ہزار روپے فی من تک فروخت ہوتی ہے۔ پچیس سو روپے فی من والی گندم بو کر تو خرچے بھی پورے نہیں ہو سکتے۔ ہم ایسا کیوں کریں؟‘‘
ڈرون ٹیکنالوجی سے پاکستانی کسانوں کی مدد کرنے والی خواتین کی سٹارٹ اپ
پنجاب حکومت نے اس بار یہ حکم بھی جاری کیا ہے کہ پٹے پر لی جانے والی تمام سرکاری زمینیوں پر اس سال صرف گندم ہی کاشت کی جائے۔
لیکن کسان بورڈ کے رہنما عبدالجبار خان بتاتے ہیں کہ ان زمینوں کا مجموعی رقبہ اتنا کم ہے کہ اس کا گندم کی مجموعی پیداوار پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔ ان کے بقول، ''کون سا کسان ایسا ہو گا جو حکومتی حکم پر سرمایہ کاری کر کے اپنا ہی یقینی نقصان کرنے پر آمادہ ہو؟‘‘