’ وی پی اینز بلاک کرنے کا فیصلہ تباہ کن ثابت ہوگا‘
19 نومبر 2024حکومت کے وی پی اینز بلاک کرنے کے فیصلے کے بعد ملک بھر میں اس کے ممکنہ اثرات پر بحث چھڑ گئی ہے۔ نہ صرف کاروباری برادری اور اپوزیشن بلکہ قانون ساز بھی اس فیصلے کی مخالفت کرتے نظرآ رہے ہیں۔
حال ہی میں پیپلز پارٹی کی سینیٹر پلوشہ خان نے آئی ٹی کی قائمہ کمیٹی کی صدارت کرتے ہوئے حکومت کے غیر سنجیدہ رویے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ مسلم لیگ ن کے سینیٹر افنان اللہ نے بھی اجلاس میں وی پی اینز بلاک کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے قانون کے تحت کسی بھی صورت میں وی پی این بلاک کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما رانا ثنا اللہ نے بھی حال ہی میں اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وی پی اینز کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔
چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) میجر جنرل (ر) حفیظ الرحمان نے بھی کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے وی پی اینز کی اہمیت کو تسلیم کیا اور کہا ''صنعت وی پی این کے بغیر کام نہیں کر سکتی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ فری لانسرز اور کمپنیاں وی پی اینز کے لیے ضروری ہیں لیکن کمپنیوں کو اپنے وی پی اینز رجسٹر کروانے چاہئیں کیونکہ تمام غیر رجسٹرڈ وی پی اینز 30 نومبر 2024 کے بعد بلاک کر دیے جائیں گے۔
وی پی این بند ہونے سے کتنا نقصان ہو گا؟
پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن کے چیئرمین نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ ملک کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا اور لاکھوں لوگ اس فیصلے سے متاثر ہوں گے۔ انہوں نے کہا، ''یہ پالیسیاں شمالی کوریا کی پالیسیوں جیسی ہیں۔ کسی ترقی یافتہ ملک نے ایسی پالیسی کبھی نافذ نہیں کی۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ''یہ صرف بڑی کمپنیوں کا معاملہ نہیں، ملک میں 2.3 ملین فری لانسرز ہیں، اور یہ فیصلہ انہیں مکمل طور پر تباہ کر دے گا۔ یہ فری لانسرز 100 سے 300 ڈالر کماتے ہیں اور اپنے خاندانوں کا سہارا بنتے ہیں۔‘‘ انہوں نے ملک میں گیمنگ انڈسٹری کے بند ہونے کا بھی خدشہ ظاہر کیا اور بتایا کہ گیمنگ انڈسٹری ملک میں 500 ملین ڈالر لا رہی ہے اور اگلے دو سالوں میں اس کے 2 بلین ڈالر تک پھیلنے کی توقع ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی اے کی نئی وی پی این پالیسی کا جائزہ لینے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ کام نہیں کر سکتی۔ ان کے بقول،''حکومت ہم سے ہمارے کلائنٹس کے آئی پی ایڈریسز مانگ رہی ہے، جن کے ساتھ ہم نے نان ڈسکلوزر ایگریمنٹ کیے ہوئے ہیں۔‘‘
پاکستان میں ایکس تک رسائی مشکل، وی پی این ڈاؤن لوڈز میں اضافہ
انہوں نے مزید کہا، ''صورتحال پہلے ہی خوفناک ہے۔ ایک بڑے سرمایہ کار گروپ نے پاکستانی آئی ٹی کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کرنے سے انکار کر دیا ہے، اور ایک اور بڑا گروپ، جس نے تقریباً 1000 آئی ٹی ورکرز کو ملازمت دی ہے، سنجیدگی سے اپنا کاروبار بند کر کے ویتنام منتقل کرنے پر غور کر رہا ہے۔‘‘
پاکستان فری لانسرز ایسوسی ایشن کے صدر طفیل احمد خان کہتے ہیں،''ایک ترقی پذیر ملک ہونے کے ناطے ہمیں ایک کاروبار دوست پالیسی بنانی چاہیے۔ قومی سلامتی بلاشبہ سب سے بڑی ترجیح ہے، لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ لوگ بے روزگار نہ ہوں۔‘‘
آئی ٹی کی قائمہ کمیٹی کی چیئرپرسن پلوشہ خان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اجلاس سے آئی ٹی کی وزیر مملکت شزہ فاطمہ اور وزارت کے سکریٹری کی غیر حاضری پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا، ''حکومت کو اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ پی ٹی اے صرف ایک پالیسی نافذ کرنے والا ادارہ ہے، حکومت کو پالیسی بنانے کی اپنی ذمہ داری نبھانی چاہیے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ وہ صنعت کے اسٹیک ہولڈرز کو ایک اجلاس میں مدعو کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہیں تاکہ ان کے خدشات سنے جائیں اور دور کیے جا سکیں۔ ان کے بقول،''پی ٹی اے 30 نومبر کو وی پی این بلاک کرنے جا رہا ہے لیکن ہم اس سے پہلے اجلاس کریں گے تاکہ سمجھداری پر مبنی فیصلوں تک پہنچا جا سکے۔‘‘