پاکستان: چھبیسویں آئینی ترمیم سینیٹ میں منظور
20 اکتوبر 2024پاکستانی پارلیمان کے ایوان بالا نے آئین کی 22 شقوں میں کی گئی ترامیم دو تہائی اکثریت سے منظور کر لی ہیں۔ اس چھبیسویں آئینی ترمیم کے حق میں سینیٹ کے 65 ارکان نے ووٹ دیا، جب کہ دو تہائی اکثریت کے لیے 64 ارکان کی تائید درکار تھی۔
پاکستانی آئین میں ترامیم سے متعلق حکومتی اتحاد اور اپوزیشن کی جماعت جمیعت علماء اسلام ف سے براہ راست اور پاکستان تحریک انصاف سے بالواسطہ مذاکرات کئی ہفتوں سے جاری تھے۔
یہ بھی پڑھیے: آئینی ترامیم کی جنگ، اگلے مرحلے کی تیاری؟
حکومت نے اس سے قبل گزشتہ ماہ بھی آئینی ترمیم کی کوشش کی تھی، تاہم مولانا فضل الرحمان کے قائل نہ ہونے کے سبب اس پر پیش رفت نہیں ہو سکی تھی۔
پاکستان تحریک انصاف نے اب بھی آئینی ترمیم پر ووٹنگ میں حصہ نہ لینے اور ترامیم کے خلاف احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
وفاقی کابینہ نے 26ویں آئینی ترمیم کا مسودہ منظور کر لیا
پاکستان کی وفاقی کابینہ نے چھبیسویں آئینی ترمیم کے مسودے کی منظوری دے دی ہے، جس کے بعد بل کو سینیٹ میں پیش کر دیا گیا ہے۔
وزیر اعظم ہاؤس سے جاری بیان میں بتایا گیا، ''وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیر قانون نے چھبیسویں آئینی ترمیم پر دوبارہ تفصیلی بریفنگ دی، جس کے بعد کابینہ نے حکومتی اتحادی جماعتوں بشمول پاکستان پیپلز پارٹی کے، چھبیسویں آئینی ترمیم کا مجوزہ مسودہ منظور کر لیا۔‘‘
وزیر اعظم شہباز شریف کے بیان میں مزید کہا گیا کہ مجوزہ مسودے کی منظوری سے 'ملکی معیشت کے استحکام کے بعد ملک کے آئینی استحکام اور قانون کی حکمرانی کے لیے ایک سنگ میل عبور ہوا‘۔
آئینی ترمیم کا بل سینیٹ میں پیش
وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد چھبیسویں آئینی ترمیم کا بل سینیٹ میں منظوری کے لیے پیش کر دیا گیا۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بل پیش کیا اور اس مجوزہ ترامیم کے بارے میں ایوان کو آگاہ کیا۔
آئین میں مجموعی طور پر 22 ترامیم کی جا رہی ہیں جن میں سے زیادہ تر ملکی عدلیہ سے متعلق ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے چند ارکان بھی سینیٹ اجلاس میں شریک
پاکستان تحریک انصاف نے اس آئینی ترمیم کے بل پر ووٹنگ میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے، تاہم اپنا موقف ریکارڈ پر لانے کے لیے تحریک انصاف کے چند سینیٹرز اجلاس میں شریک ہوئے۔
تحریک انصاف کے سینیٹر علی ظفر نے سینیٹ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت نے مشاورتی کمیٹی میں ترامیم سے متعلق کوئی تجاویز نہیں دیں اور نہ ہی ان کی جماعت ترامیم کے حق میں ہے۔
علی ظفر نے بتایا کہ سینیٹ اجلاس میں ان کے صرف دو یا تین سینیٹرز شریک ہیں کیوں کہ انہیں ڈر ہے کہ 'پکڑے جائیں گے، افواہ ہے کہ اس ایوان میں ہمارے کچھ ساتھیوں کو پیش کیا جائے گا، یہ سارا عمل جرم ہے اور آئین و جمہوریت کے اصولوں کے خلاف ہے‘۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر تحریک انصاف کا کوئی رکن ووٹ ڈالے تو اسے شمار نہ کیا جائے۔
علی ظفر کی گفتگو کے بعد سینیٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی پارلیمانی رہنما شیری رحمان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت نے آئینی ترمیم کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی۔
ش ح/ ا ب ا