پاکستان: کرم میں قبائل کے مابین تصادم، پینتیس افراد ہلاک
28 جولائی 2024پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں حکام کے مطابق دو قبائل کے درمیان زمین کے تنازعہ کے فرقہ وارانہ رنگ اختیار کرنے کے بعد سے جاری جھڑپوں میں اب تک کم ازکم پینتیس افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ایک مقامی پولیس اہلکار مرتضیٰ حسین کے مطابق مدگی اور مالی خیل قبائل کے مابین بدھ کے روز اس وقت لڑائی شروع ہوئی، جب ایک مسلح شخص نے زرعی زمین پر دہائیوں سے جاری تنازع پر مذاکرات کرنے والی کونسل پر فائرنگ کر دی۔
اس پولیس اہلکار کے مطابق اس حملے میں کوئی زخمی نہیں ہوا تھا تاہم اس واقعے نے دونوں قبائل کے مابین پائی جانے والی دیرینہ فرقہ وارانہ کشیدگی کو پھر سے ہوا دے دی۔
حسین نے اے ایف پی کو بتایا، ''ابتدائی طور پر یہ زمین کا تنازعہ تھا، اب یہ معاملہ فرقہ وارانہ تشدد میں تبدیل ہو گیا ہے۔‘‘
اس پولیس اہلکار نے اس تنازعے میں ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا، ''اب تک پینتیس جانیں لی جا چکی ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''حکومت اور مقامی رہنما جرگوں کے ذریعے لڑائی روکنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔‘‘ پاکستان میں خاندانی جھگڑے عام ہیں۔ تاہم یہ خیبر پختونخواہ کے علاقوں میں خاص طور پر طویل اور پرتشدد ہو سکتے ہیں، جہاں بسنے والے روایتی قبائلی اقدار کے ضابطوں کی پابندی کرتے ہیں۔
پاک افغان سرحد پر واقع ضلع کرم سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر سرکاری اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ابھی تک اس تنازعے میں پینتیس افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور مزید 151 لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا، اب اپنے پانچویں دن میں یہ تنازعہ شیعہ سنی تنازعہ میں تبدیل ہو گیا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا، '' اس تنازعے کو حل کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہییں۔‘‘
سرکاری اہلکار نے کہا کہ اس تنازعے میں شیعہ اکثریتی مالی خیل قبیلے کو ''سب سے زیادہ نقصان‘‘ اٹھانا پڑا، اور اب تک اس قبیلے سے تعلق رکھنے والے تیس افراد مارے جا چکے ہیں۔ پولیس زرائع کے مطابق دونوں فریق پاراچنار کے قصبے کے ارد گرد ہونے والی لڑائی میں خودکار ہتھیاروں اور مارٹروں کا استعمال کر رہے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس علاقے کی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔
کرم ضلع کے ایک سینئر اہلکار نے کہا، ''علاقے میں اب بھی جھڑپیں جاری ہیں، جن میں چھوٹے اور بڑے دونوں ہتھیاروں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔‘‘
کرم وفاق کے زیر انتظام سابقہ قبائلی علاقوں کا حصہ اور ایک نیم خودمختار علاقہ تھا، جسے سن 2018 میں صوبہ خیبر پختونخواہ کے ساتھ ضم کر دیا گیا تھا۔ یہ اقدام اس خطے کو ریاستی قانونی اور انتظامی دھارے میں تو لے آیا لیکن پولیس اور سکیورٹی فورسز کو اکثر اوقات یہاں حکومتی عملداری کے نفاذ کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔
ش ر⁄ ع آ (اے ایف پی)