پاکستان کو ’بنگلہ دیش بننے‘ کے لیے کتنا وقت درکار ہے؟
4 ستمبر 2018ایک مقامی ٹیلی وژن کے ٹاک شو میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی ضیغم خان نے کہا کہ ’’ہمیں بڑے بڑے نعرے لگانے کی بجائے قابل عمل اہداف مقرر کرنے چاہییں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو سوئٹزرلینڈ بنانے کا نعرہ ظاہر کرتا ہے کہ عمران خان اور ان کی پارٹی حقائق سے آشنا نہیں اور حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو فی الحال بنگلہ دیش کی سطح پر پہنچنے کے لیے بھی کم از کم دس برس درکار ہوں گے۔ انہوں نے چند اعداد وشمار بھی پیش کیے، جن کے مطابق، "اگرچہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق کرپشن کے حوالے سے بنگلہ دیش چوبیس پوائنٹ پاکستان سے پیچھے ہے لیکن معاشی اشاریوں میں وہ پاکستان سے آگے ہے۔ بنگلہ دیش سات فیصد کی شرح سے ترقی کر رہا ہے جبکہ پاکستان کی شرح ترقی پانچ عشاریہ آٹھ فیصد ہے۔ ڈھاکہ سٹاک ایکسچینج کی کل مالیت 300 ارب ڈالر ہے جبکہ پاکستان سٹاک ایکسچینج کی کل مالیت 100 بلین ڈالر ہے۔ بنگلہ دیش کی برآمدات کی کل مالیت 40 ارب ڈالر ہے جبکہ پاکستان کی برآمدات 22 ارب ڈالر ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ مسئلہ کرپشن یا انسانی حقوق کا نہیں بلکہ معاشی نظام کو درست خطوط پر استوار کرنے اور ٹھوس معاشی پالیسیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ "اگر پی ٹی آئی سب کچھ ٹھیک بھی کر لے تب بھی ہمیں بنگلہ دیش کی سطح پر پہنچنے کے لیے کم از کم دس برس درکار ہوں گے۔‘‘
یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے پاکستان کی تعمیر و ترقی سے متعلق سے اپنے وژن کی وضاحت کرتے ہوئے سوئٹزرلینڈ کے ماڈل پر عمل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس سے قبل انہوں نے فرد اور قوم کی اخلاقی اقدار، ریاست کی شفافیت اور حکمرانوں کی دیانت داری کے حوالے سے مدینہ ریاست کو اپنی منزل قرار دیا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے قوم کو غربت کی تاریکی سے نکالنے کے حوالے سے متعدد مرتبہ چین کی مثال بھی دی۔ وہ اپنے پروگرام میں ایک کروڑ نوکریوں جیسے اہداف کا اعلان بھی کر چکے تھے۔
بنگلہ دیشی میڈیا میں ضیغم خان کے بیان کی بازگشت گونجی تو وزیراعظم شیخ حسینہ واجد تک بھی پہنچی۔ حسینہ واجد اور ان کی پارٹی عوامی لیگ اور حکومت پر پاکستان کی مخالفت اور بھارت نوازی کا الزام دھرا جاتا ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے دوطرفہ تعلقات میں کشیدگی پائی جاتی ہے، جس کا اظہار جماعت اسلامی کی سینئر راہنمائوں کو پھانسی دینے کے ساتھ ساتھ سارک اجلاسوں سمیت ہر عالمی اور علاقائی فورم پر ہوتا ہے۔
بنگلہ دیشی میڈیا کو بیان دیتے ہوئے حسینہ واجد کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش دو طرفہ تعلقات میں تلخی کے باوجود پاکستان کی مدد کرنے پر تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ، ’’اگر پاکستان ہم سے مدد کی درخواست کرے گا تو ہم اپنے تجربات کے حوالے سے پاکستانی عوام کی فلاح اور دو طرفہ تعلقات میں بہتری لانے کے مقاصد کی خاطر، ان کی بھرپور مدد کریں گے۔‘‘ وزیراعظم عمران خان کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ، ’’عمران خان کھلاڑی ہیں اور انہوں نے کئی چھکے مارے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ گیم آف پاور میں کتنے چھکے ماریں گے۔ انہوں نے بڑی جدوجہد کے بعد اقتدار حاصل کیا ہے۔‘‘
سینئر صحافی اور اینکر پرسن مرتضیٰ سولنگی نے ضیغم خان کے استدلال سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں واقعی بنگلہ دیش سے سبق سیکھنا چاہیے، ’’سن 1971ء میں ان کی آبادی 5.6 کروڑ تھی جبکہ پاکستان کی آبادی 4.4 کروڑ تھی۔ آج ہمارے یہاں آبادی میں اضافے کی شرح چار عشاریہ دو فیصد ہے اور بنگہ دیش نے اسے کم کر کے ایک عشاریہ ایک فیصد کر لیا ہے، جو کہ ایک شاندار کامیابی ہے۔
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے ضیغم خان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مغربی ممالک سے تقابل ایک سیاسی نعرہ ہے۔ ان کا استدلال یہ ہوتا ہے کہ کرپشن کا خاتمہ کرکے یا چند دیگر اقدامات کر کے ہم ناروے، سوئٹزرلینڈ یا ڈنمارک بن سکتے ہیں یا لاہور کو پیرس بنا سکتے ہیں۔ ضیغم خان کے مطابق، ’’مغرب خصوصاﹰ یورپ مخصوص تاریخ اور مخصوص معاشی، سماجی اور ثقافتی حقائق کے امتزاج سے تشکیل پایا ہے، جس میں معاشی انقلاب، سامراجیت کا ادوار، علوم و فنون کی صدیوں پر محیط ترقی اور جمہوریت کا ارتقاء وغیرہ جیسے کئی عوامل شامل ہیں۔ ہمیں مغرب سے زیادہ ان ممالک سے سیکھنا چاہئے جو ہمارے جیسے ہیں۔ درحقیقت ڈاکٹر محبوب الحق اور امرتیہ سین نے یہی بات کی کہ اگر ہم اپنے مخصوص معاشی، سماجی اور ثقافتی حقائق سے جڑ کر انسانوں کی فلاح پر توجہ دیں گے تو صدیوں کا سفر دہائیوں میں طے ہو جائے گا۔‘‘
بنگلہ دیش میں شیخ مجیب الرحمٰن کا قتل، ابھی تک معمہ ہے
بنگلہ دیش کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’بنگلہ دیش ہمارا جڑواں بھائی ہے۔ جب بنگلہ دیش ہم سے آزاد ہو کر ایک خود مختار ملک کے طور پر دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا تو دنیا اسے ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھ رہی تھی، جہاں ایک چھوٹے سے رقبے میں بہت بڑی آبادی موجود تھی، جو ہر وقت قدرتی آفات کی زد میں رہتا تھا، جو شرح آبادی میں سب کو پیچھے چھوڑ رہا تھا۔ بنگلہ دیش میں کپاس نہیں اگتی لیکن آج اس نے ٹیکسٹائل میں ہمیں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ہمیں ان سے پوچھنا چاہیے کہ تقریباﹰ تمام معاشی اشاریوں میں انہوں نے اس قدر ترقی کیسے کی؟ خصوصاﹰ شرح آبادی کو روکنے کے حوالے سے دیکھنا چاہیے کہ وہ بھی مسلمان ملک ہے اور وہاں بھی اسی طرح مولوی موجود ہیں تو انہوں نے یہ کام کیسے کر لیا جبکہ اگر ہم نو فیصد کی شرح سے ترقی کریں، تب بھی شرح آبادی میں اضافے کی وجہ سے اس کا فائدہ نہیں ہو گا۔‘‘
معاشی پالیسیوں کے حوالے سے ڈی ڈبلیو کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ضیغم خان نے کہا، ’’مسائل، ان کی وجوہات اور ان کے حل سب پر واضح ہیں لیکن جرات مندانہ اقدامات کا فقدان ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت معاشی ترقی چاہتی ہے تو اسے غیر مقبول فیصلے کرنے ہوں گے اور مافیاز کو ناراض کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہو گا۔ 700 ارب روپے سالانہ سرکاری اداروں کی مد میں ضائع ہو جاتے ہیں۔ لیکن نجکاری کون کرے؟ اسی طرح اگر ٹیکس کا دائرہ بڑھائیں گے تو طاقتور حلقے ناراض ہوں گے۔ بجلی کے حوالے سے 1100 ارب روپے کا سرکلر قرضہ ہے اور سب سے بڑا نادہندہ خیبر پختونخواہ ہے۔