پاکستانی جج، آئی سی ٹی آر کی نئی سربراہ
26 مئی 2011بین الاقوامی فوجداری عدالت کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا کہ61 سالہ خالدہ راشد خان جمعے سے اپنی نئی ذمہ داریاں سنبھال لیں گی۔ اس سے قبل اس عہدے پرڈینس براؤن فائز تھے۔ دوسری مرتبہ دو سالہ مدت پوری ہونے پر ان سے یہ عہدہ واپس لے لیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 1994ء میں آئی سی ٹی آر کے قیام کی منظوری دی تھی۔ اس کا مقصد روانڈا میں نسل کشی کے واقعات کی تحقیقات کرنا تھا۔ اس افریقی ملک میں 1994ء میں ہوتو اور توتسی قبائل کے مابین پرتشدد فسادات کا آغاز ہوا۔ اس دوران ایک اندازے کے مطابق 8 لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ مرنے والوں میں سے زیادہ تر کا تعلق توتسی قبائل سے تھا جبکہ اس دوران معتدل ہوتوز کوبھی بڑی تعداد میں قتل کیا گیا۔ اس مقدمے میں پولیس نے 2010ء میں روانڈا کے ایک ڈاکٹر کو گرفتار کیا تھا، جس پر الزام تھا کہ وہ توتسی اور ہوتو قبائل کی نسل کشی میں براہ راست ملوث رہا ہے۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت کا قیام 2002 ء میں ہوا تھا۔ عدالت کا مرکزی دفتر ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں قائم ہے۔ یہ واحد عدالت ہے، جس کا دائرہ دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے۔ اس عدالت کے قیام کے بعد دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی جنگی جرائم یا نسل کشی کے واقعات سامنے آئے، اس علاقے میں عدالت کا ایک خصوصی ٹریبیونل قائم کیا گیا۔ روانڈا، سیرا لیون اور سابق یوگوسلاویا میں یہ عدالت بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے واقعات کی چھان بین کر رہی ہے۔
پاکستانی جج خالدہ راشد خان اگست 2003ء سے انٹرنیشنل کرمنل کورٹ سے منسلک ہیں۔2007ء تک وہ نائب سربراہ کے عہدے پر فائز تھیں اور وہ دوسری خاتون جج ہیں، جنہیں اس ٹریبیونل کا سربراہ بنایا گیا ہے۔ اس سے قبل جنوبی افریقہ کی ناوی پلائی پہلی خاتون سربراہ تھیں۔
خالدہ راشد خان پشاور ہائی کورٹ میں جج کے طور پر کام کرتی رہی ہیں۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ توتسی قبائل کی خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے ایک انتہائی طویل مقدمے کا فیصلہ 24 جون کو سنایا جائے گا۔ اس کیس میں چھ افراد ملوث ہیں۔
رپورٹ : عدنان اسحاق
ادارت : شامل شمس